نئی حلقہ بندیاں بنیادی شرط

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ملک میں انتخابات کے انعقاد کو نئی ڈیجیٹل مردم شماری اور حلقہ بندیوں سے مشروط کرتے ہوئے نگران حکومت کی جانب سے ان شرائط کے بغیر انتخابات پر انگلیاں اٹھنے کا خطرہ ظاہر کر دیا ہے، اسلام آباد میں ایک پریس کانفرس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ انتخابات کے حوالے سے وزارت خزانہ’ داخلہ اور دفاع کے تحفظات برقرار ہیں، امر واقعہ یہ ہے سپریم کورٹ کی جانب سے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کیلئے تاریخیں دینے کیلئے دیئے جانے والے احکامات کے نتیجے میں پنجاب میں تو پولنگ کیلئے30 اپریل کی تاریخ مقرر کی جاچکی ہے تاہم خیبرپختونخوا میں تاحال کوئی حتمی فیصلہ سامنے نہیں آسکا اور گورنر خیبرپختونخوا غلام علی اور الیکشن کمیشن کے حکام کے درمیان بات چیت کسی فیصلہ کن موڑ پر نہیں پہنچ سکی جبکہ گورنر غلام علی نے اگلے ہفتے اسلام آباد میں چیف الیکشن کمشنر سے ملاقات میں تاریخ دینے کی بات کی ہے جس پر تحریک انصاف کے صوبائی رہنمائوں نے شدید تنقید کرتے ہوئے اسے آئینی بحران پیدا کرنے کا باعت قرار دیا ہے اور عدالت سے رجوع کا عندیہ دیا ہے، موجودہ صورتحال میں اب ممکنہ طور پرحتمی فیصلہ ایک بار پھر عدالت عظمیٰ کے اندر ہی سے برآمد ہوسکتا ہے تاہم وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی بات کو بھی اتنی آسانی سے رد نہیں کیا جاسکتا کیونکہ جہاں تک ڈیجیٹل خانہ شماری اور مردم شماری کے انعقاد اور اس کے بعد نئی حلقہ بندیوں کا تعلق ہے اس کا فیصلہ بھی خود عمران خان کی حکومت کے دوران کیا گیا تھا اور اصولی طور پر بھی یہ ایک آئینی تقاضا ہے جس کے بغیر ہونے والی حلقہ بندیاں اور پھر انتخابات موجودہ حلقہ بندیوں اور مردم شماری کے تحت کرانے پر نہ صرف سوال اٹھ سکتے ہیں بلکہ ممکن ہے کہ کوئی بھی شخص اس حوالے سے عدالت سے رجوع کرکے انتخابات کے نتائج ہی کو چیلنج کر دے جس کے نتیجے میں آئینی اور قانونی مشکلات کھڑی ہوسکتی ہیں اور جب تک تمام سیاسی جماعتیں باہم مشاورت سے نئی مردم شماری اور حلقہ بندیوں کی بجائے پرانے حلقہ بندیوں پر انتخابات کرانے پر متفق نہ ہوں تب تک یہ مسئلہ آسانی سے حل ہوتا نظر نہیں آتا، اس لئے بعض حلقے جو موجودہ صورتحال کے تحت انتخابات کے انعقاد پر شکوک کا اظہارکر رہے ہیں ان کے خدشات اتنے بے معنی بھی نہیں ہیں بلکہ صورتحال ”نہ پائے رفتن’ نہ جائے ماندن” والی دکھائی دے رہی ہے، اب ماہرین آئین ہی اس حوالے سے کوئی رائے دے سکتے ہیں جس کیلئے یقیناً درست فورم سپریم کورٹ ہی ہے جس سے رہنمائی لے کر ہی ہم آگے بڑھ سکتے ہیں کیونکہ موجودہ صورت میں انتخابات کے انعقاد سے انکار بھی توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے جبکہ بغیر نئی مردم شماری اور حلقہ بندیوں کے انتخابات کا انعقاد بھی آئینی تقاضوں کی نفی ہوسکتی ہے، اس لئے سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا ہی ضروری ہے۔

مزید پڑھیں:  حد ہوا کرتی ہے ہر چیز کی اے بندہ نواز