مشکل معاشی حالات سے نجات

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے ملک کے چیدہ چیدہ بڑے تاجروں’ صنعتکاروں اور سرمایہ کاروں کے ساتھ ملاقات میں یقین دلایا ہے کہ پاکستان کے ڈیفالٹ کا خطرہ ٹل چکا ہے اور اب ملک مشکل معاشی صورتحال سے کامیابی کے ساتھ باہر نکل آئے گا’ ملک نہ صرف ترقی کرے گا بلکہ ہم ایک خوشحال قوم بن کر ابھریں گے، آرمی چیف کے ساتھ تاجروں اور صنعتکاروں کی اس ملاقات میں وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی موجود تھے، اس پوری ملاقات کے دوران آرمی چیف پرامید نظر آئے اور انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ موجودہ معاشی مشکلات پر قابو پالیا جائے گا، انہوں نے کاروباری شخصیات سے کہا کہ وہ پر اعتماد و پرعزم رہیں قوموں پر مشکلات آتی ہیں اور ہمیں بھی مشکلات کا سامنا ہے لیکن بدتر حالات کو پیچھے چھوڑ چکے ہیں اور ہم قائم و دائم رہیں گے، ملک بہتری کی جانب گامزن ہے’ جہاں تک سیاسی عدم استحکام کا تعلق ہے تو فوج یہ فیصلہ کرچکی ہے اب کسی طور پر سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کی جائے گی لہٰذا سیاستدانوں کو اپنے سیاسی معاملات خود حل کرنا ہوں گے۔ اس موقع پر وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام کی وجہ سے شدید مشکلات درپیش رہی ہیں، اب مشکل فیصلے کر کے آئی ایم ایف کے ساتھ سٹاف سطح کے معاہدے کے قریب پہنچ چکے ہیں اور توقع ہے کہ اسی ہفتے معاہدہ ہوجائے گا۔ آرمی چیف نے تاجروں ‘صنعتکاروں اور سرمایہ کاروں کو ملک کے ڈیفالٹ کے خطرے سے باہر آ جانے کی جو بات کی ہے یہ عمومی طور پر بھی حوصلہ افزاء ہے اور ان عناصر کے جھوٹے پروپیگنڈے کی تردید کا ثبوت ہے جو ایک عرصے سے صرف موجودہ حکومت کے ساتھ سیاسی مخاصمت کی بنیاد پر ملک کے اندر پھیلا کر عوام میں مایوسی پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں، اس میں قطعاً شک نہیں ہے کہ موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے سے پہلے سابق حکومت کے کچھ غلط فیصلوں کی وجہ سے آئی ایم ایف نے اپنا رویہ تبدیل کرلیا تھا جس کی وجہ سے ملک کے ڈیفالٹ کی باتیں ہونے لگی تھیں اور موجودہ حکومت نے بہ آمر مجبوری سخت فیصلے کر کے نہ صرف اپنی سیاسی ساکھ کو دائو پر لگایا بلکہ عوام کے اندر بھی مہنگائی میں بتدریج اضافے سے منفی تاثر پھیلتا چلا گیا مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ ناگزیر تھا اور اب بھی آئی ایم ایف کی سخت شرائط کم ہونا تو درکنار بڑھتی جا رہی ہیں اور ممکن ہے کہ آنے والے انتخابات میں حکمران اتحادی جماعتوں کو اس کی مزید قیمت بھی چکانا پڑ جائے تاہم جیسا کہ حالات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اتنے سخت اقدامات کے بعد کم از کم ملک کے ڈیفالٹ کا خطرہ ٹل چکا ہے اور بالآخر مشکلات کا یہ دور بھی آخر گزر جائے گا جس کے بعد معاشی ترقی کی اٹھان کاآغاز ہونے کے امکانات روشن سے روشن تر ہوتے جائیں گے۔ آرمی چیف نے اگر ملک کے ڈیفالٹ کے خطرے کے ٹلنے کی بات ہے کہ تو اس کے پیچھے بھی وہ حقائق ہیں جو ان کے علم میں ہیں اور تاجروں کے ساتھ ملاقات میں وفاقی وزیر خزانہ کی موجودگی اور بریفنگ میں حصہ لینے سے واضح ہوتا ہے کہ حکومت معیشت کو درست سمت ڈالنے میں کامیاب ہورہی ہے، اس موقع پر تحریک انصاف کے ایک رہنماء اور سابق وزیر فواد چوہدری کا بیان بھی توجہ طلب ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ تاجر اپنے کاروباری مفاد کیلئے آرمی چیف سے ملے یہ ہر آرمی چیف سے ملتے رہتے ہیں’ فواد چوہدری کی بات اس لحاظ سے بالکل درست ہے کہ یہ طبقہ بقول ان کے ہر ایسے موقع پر ملکی حالات ٹھیک کرنے کے نسخے بتاتے ہیں جن کا مقصد دراصل ذاتی مفادات ہوتے ہیں تاہم جہاں تک سرمایہ کاروں’ صنعتکاروں’ بڑے تاجروں کے مشوروں کا تعلق ہے تو یقیناً ہر طبقہ اپنی مشکلات پر قابو پانے اور ذاتی مفادات سمیٹنے کی ہی بات کرسکتا ہے لیکن اب اس سلسلے کو روکنا ضروری ہوگیا ہے کیونکہ دستیاب معلومات کے مطابق محولہ ملاقات بھی متعلقہ تاجر طبقے کی بار بار درخواستوں کے بعد ہی طے پا سکی اور مبینہ طور پر جس طرح آرمی چیف نے ایک سیاسی جماعت کے سربراہ کی جانب سے ”روابط” قائم کرکے ملاقات سے واضح طور پر انکار کیا اور ایک بار پھر واضح کیا کہ افواج نے سیاسی معاملات میں مداخلت سے مکمل احتراز کی پالیسی اختیار کرلی ہے اس لئے سیاسی رہنماء سیاسی معاملات آپس ہی میں طے کریں، اس طرح ماضی کے آرمی چیفس کے ساتھ دیگر طبقات کی ”مفادات پر مبنی” ملاقاتوں سے بھی اب گریز کی پالیسی اختیار کرنی چاہئے۔ خود یہ کاروباری طبقات بھی اپنے تمام معاملات حکومت (خواہ کسی کی بھی ہو) کے ساتھ صلاح مشورہ کے ساتھ طے کرنے پر توجہ دیں، اس لئے کہ پالیسیاں بنانا حکومتوں کا کام ہوتاہے اور اب جبکہ بجٹ کے آنے میں بھی زیادہ عرصہ نہیں ہے اور ممکنہ طور پر بجٹ کے خدوخال طے ہونا شروع ہوچکے ہوں تو ابھی سے تاجر برادری اپنے مسائل اور مشکلات کو واضح کرنے کیلئے بڑے شہروں میں مذاکرے اور سیمینارز منعقد کرکے چیمبرز آف کامرس ‘انجمن تاجران وغیرہ وغیرہ کے زیر اہتمام اپنی آواز حکومت تک پہنچائیں جبکہ پری بجٹ سیمینارز بھی بجٹ پیش کرنے سے پہلے منعقد کئے جاسکتے ہیں، حالانکہ ایک ذمہ دار شخص کا یہ بیان بھی حال ہی میں سامنے آیا تھا کہ اب ہمارا بجٹ آئی ایم ایف بنائے گا’ ایسی صورت میں متعلقہ طبقات بھی تیار ہوکر اپنی تجاویز دیں جس سے ملک میں صحت مند معاشی سرگرمیوں کا آغاز ہو سکے اور ہم مشکل معاشی صورتحال سے باہر آسکیں۔

مزید پڑھیں:  ویج مجسٹریٹ کی تعیناتی