چین امریکہ کشمکش کمزور ملکوں کی شامت

چین کے نئے وزیر خارجہ کن گینگ نے اپنی پہلی پریس کانفرنس میںامن عالم کے حوالے سے بہت معنی خیز بات کی ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ اگر امریکہ نے اپنی تائیوان پالیسی جاری رکھی تو دونوں ممالک ناگزیر تصادم کی طرف بڑھتے چلے جائیں گے ۔انہوںنے چین اور روس کے تعلق کا بھرپور دفاع کیا اور کہا اگر امریکہ یوکرین کو اسلحہ دے سکتا ہے تو چین بھی روس کے ساتھ تعاون کرسکتا ہے یہ کسی ملک کے خلاف نہیں ۔چینی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ تھا کہ تائیوان چین کی ریڈ لائن ہے ۔چین اور امریکہ کے درمیان غبارے کا تنازعہ پہلے سے جاری کشیدگی کو نئی بلندیوں کی طرف لے جانے کا باعث بن رہا ہے ۔یہاں تک کہ اب چینی نمائندے کو کہنا پڑا ہے کہ اگر امریکہ نے اسی طرح چین کو محدود کرنے کی کوشش کی تو تصادم ناگزیر ہو کر رہ جائے گا ۔اس کا کہنا تھا کہ غبارے کا مسئلہ اتنا بڑا نہیں تھا جس قدر امریکہ نے اس مسئلے کو ہوا دی اس معاملے کو مل بیٹھ کر حل کیا جا سکتا ہے ۔امریکہ نے چین کے غبارے کو اپنی حدود میں مارگرایا اورپہلے تو چین نے اس پر خاموشی اختیار کی بعدازاں اسے ایک سول طیارہ قرار دیا۔چین اور امریکہ دونوں پہلے ہی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑے تھے اب آنکھوں میں لالی بھی اُترتی ہوئی محسوس ہو نے لگی ہے ۔چین کی طرف سے یہ بات تسلیم کی جا رہی ہے کہ امریکہ نے انہیں اپنا پہلا دشمن قرار دے رکھا ہے اس لئے چین صرف سٹریٹجک میدان میں ہی امریکہ کو چیلنج نہیں کر رہا بلکہ تجارتی میدان میں اس سے دنیا کی نمبر ون معیشت کا اعزاز چھیننے کے درپہ ہے ۔اس کی نسبت روس کا زیادہ تر چیلنج یورپ کو درپیش ہے اور یورپی اتحادی کے طور پر امریکہ روس کو سبق سکھا نے کی تگ ودو کررہا ہے۔یوکرین نے اس کھلی محاذآرائی کو ایک میدان فراہم کر دیا ہے۔چین کے ساتھ کھلی محاذآرائی کے لئے تائیوان کو تیار کیا جا رہا ہے مگر شاید چین ابھی اس دلدل میں قدم رکھنے سے گریزاں ہے اور یوکرین کے حالات کو دیکھتے ہوئے چین آخری حد تک صبر کا گھونٹ پینے کی کوشش کرے گا ۔یہ صرف اسی وقت ممکن ہو گا جب امریکہ چین کو اپنی کچھار سے باہرسے باہر نکال لائے گا تو چین کھلی محاذآرائی پر مجبور ہوگا۔جس کا اشارہ غبارے کے تنازعے کے بعد چینی نمائندے نے دیا ہے۔چین اور امریکہ کی اس کشمکش میں تیسری دنیا کے ترقی پزیر ملکوں اور کمزور معیشتوں کی شامت آگئی ہے جنہیں چین یا امریکہ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے جیسی پیچیدہ صورت حال کا سامنا ہے ۔بدقسمتی سے امریکہ نے چھوٹے ملکوں کے لئے” آپ ہمارے ساتھ ہیں یا چین کے ساتھ ” کی سخت گیر پالیسی اپنا کرغیر جانبداری کی گنجائش ہی نہیں چھوڑی ۔یہ سرد جنگ سے زیادہ خطرناک او رمشکل صورت حال ہے ۔سردجنگ میں غیر جانبدار تحریک کے نام پر کچھ ملکوں نے ایک الگ راہ اپنائی تھی مگراب ایسی کوئی گنجائش موجود نہیں ۔پاکستان ان ملکوں میں سرفہرست ہے جو چین اور امریکہ کی کھلی محاذ آرائی کی زد میں آرہے ہیں۔امریکہ پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے تو چین اس کا قریبی ہمسایہ اورسٹریٹجک اتحادی ہے ۔سی پیک کی صورت میں چین پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری کرچکا ہے اور آگے کی منصوبہ بندی جاری رکھے ہوئے ہے ۔گوادر کی بندرگاہ کے مقابلے میں ایران میں چا بہار بندرگاہ کی تعمیر کا منصوبہ بنایا گیا تھا ۔گوادر میں چین کی دلچسپی تھی تو چا بہار میں بھارت کا گہرا مفاد تھا کیونکہ یہ بندرگاہ بھارت کو وسط ایشیائی ریاستوں اور افغانستان تک پہنچنے کے لئے پاکستان کی محتاجی اور مجبوری سے بچا رہی تھی ۔یوں چا بہار بندرگاہ پاکستان کو نظر انداز کرکے وسط ایشیا تک پہنچنے کی حکمت عملی کامظہر تھی۔گوادر اور چا بہار کی تعمیر انہی دوالگ مقاصد کے تحت ایک ساتھ جاری رہی ۔چند دن قبل ایک مغربی دانشور نے چا بہار کی ایک تصویر کے ساتھ یہ ٹویٹ کیا تھا کہ گوادر اور چا بہار کی تعمیر ایک ساتھ ہوتی رہی مگر گوادر کے مقابلے میںچابہار ایک اچھا ٹیک آف کر چکی ہے ۔یہ چا بہا ر بندگاہ پر افغانستان کے لئے لدے ہوئے مال بردار ٹرکوں کی قطار کی تصویر تھی ۔ان ٹرکوں میں بھارت سے جانے والا مال افغانستان بھیجا جا رہا تھا۔اس کے برعکس گوادر چین کو بین الاقوامی دنیا سے جوڑنے اور جنوبی چین کے سمندروںاور جزائر ملاکا پر کلی انحصار ختم کرنے کی حکمت عملی کے تحت تعمیر ہوئی تھی اور اس عمل میں پاکستان اپنے لئے مواقع اور امکانات کی ایک خیالی جنت بھی ذہن میں بسائے ہوئے تھا مگر ابھی تک نہ تو اس مقصد میں کامیابی ہوئی اور نہ پاکستان کا معاشی عدم استحکام دور ہو سکااُلٹا اس منصوبے کے باعث پاکستان ایک کراس فائر میں پھنس کر رہ گیا ۔امریکہ پاکستان کے بالادست طبقات اور این جی اوز کو خوش رکھتا ہے جبکہ چین پاکستان کے اُجڑے ہوئے خزانے کی رونقیں بحال رکھ کر مجموعی طور پر پاکستان کو معاشی وینٹی لیٹر فراہم کرتا ہے ۔مجموعی طور پر چین کی اس پالیسی کا فائدہ ایک عام اور مفلوک الحال پاکستانی کو ہوتا ہے جبکہ بالادست طبقات کو خوش رکھنے کا عام آدمی سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا ۔اس سے صرف فیصلہ سازی پر اپنا اثر رسوخ بحال رکھنے میں کامیابی ملتی ہے ۔چین اور امریکہ کی بڑھتی ہوئی کشمکش پاکستان جیسے ملک کے لئے تنی ہوئی رسی پر سفر ہے۔ماضی کی سرد جنگ سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان تھی اور پاکستان سوویت یونین کے ساتھ اپنی راہیں پہلے ہی جدا کرکے مغربی کیمپ کا حصہ بن چکا تھا اس لئے پاکستان پر کسی بھی دبائو کے زیادہ اثرات نہیں پڑتے تھے ۔اب حالات یکسر بدل گئے ہیں اب امریکہ نے اپنا نمبر ون ہدف چین کو قرار دے رکھا ہے ۔پاکستان سب سے زیادہ یا بیک وقت جن دو ملکوں کے اثرات کی زد میں ہے ان میں چین اور امریکہ شامل ہیں۔پاکستان کے لئے اس کشمکش سے اپنا دامن بچانا کارِ دارد ہے۔کم وزیادہ اس مشکل کا سامنا اور دنیا میں بہت ممالک کو ہے مگر چین اور پاکستان تعاون کے جس تعلق میں بندھے ہوئے ہیںاوردونوں کا رشتہ جس حد تک گہرا ہے اس میں پاکستان کا چین کے خلاف استعمال ہونا حد درجہ مشکل اور خطرات سے بھرپور ہے ۔

مزید پڑھیں:  استحصالی طبقات کاعوام پر ظلم