تماشا کب سربازار ہونہیں سکتا؟

نوبت بہ ایں جارسید کہ ہمیں اپنے لڑکپن کے دور کی ایک بھارتی فلم ٹیکسی ڈرائیور یاد آگئی ‘ یہ غالباً پچاس کی دہائی کی بات ہے جب دیوآنند اور کلپتا کارتک کی فلم ٹیکسی ڈرائیور نمائش کے لئے پیش ہوئی تھی ‘ اس فلم کے یاد آنے کی وجہ گزشتہ روز سندھ اسمبلی میں تحریک ا نصاف کے رکن شمیم نقوی کی جانب سے عوامی مسائل پر بات کرتے ہوئے ایوان میں کپڑے اتارنے کی کوشش کی ویڈیو ہے جس میں رکن اسمبلی شمیم نقوی عوامی مسائل پر بحث کے دوران پہلے اپنی ٹوپی اتارتے دیکھے جا سکتے ہیں اور انہوں نے اس پر بھی بس نہیں کی بلکہ جذبات میں آکر جب انہوں نے سپیکر سندھ کو مخطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ یہیں تک نہیں رکیں گے ‘ اور جب انہوں نے قمیض اتارنے کی کوشش کی تو سپیکر نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ایوان میں خواتین بھی ہیں اس لئے ایسا نہ کریں ‘ جس کے بعد ایوان میں ہنگامہ ہوگیا خبر میں یہ تو نہیں بتایاگیا کہ شمیم نقوی نے ٹوپی اتارنے کے بعد قمیض اتار دی تھی یا نہیں ‘ تاہم لگ یہی رہا تھا کہ دوسرے اراکین نے انہیں روک دیا ہوگا ‘ فلم ٹیکسی ڈرائیور میں اسی نوعیت کا ایک منظر تھا ‘ دیو آنند ٹیکسی ڈرائیور ہوتا ہے جبکہ جس ٹیکسی سٹینڈ پر وہ روزانہ اپنی ٹیکسی کھڑی کرتا ہے وہاں دو لڑکے بھی ہیلپر کے طور پر گاڑیاں دھونے ‘ ٹائر ٹیوب میں ہوا بھرنے وغیرہ وغیرہ کا کام کرتے ہیں ‘ فلم کی ہیروئن کلپنا کارتک بھی گھر سے بھاگ کر حادثاتی طور پر دیوآنند اور اس کے ساتھی(مزاحیہ ادکار جانی واکر) کے ہاتھ لگ جاتی ہے ‘ اس نے اپنے بال کٹوا کر مردانہ کپڑے پہن رکھے ہوتے ہیں ‘ دیو آنند اسے بدمعاشوں سے چھڑا کر اپنی کھولی(کمرے) میں رکھ لیتا ہے وہ بھی ٹیکسی سٹینڈ پر ان لڑکوں کے ساتھ ٹیکساں دھونے اور دیگر محنت مزدوری کرتی ہے ایک بار وہ دنوں لڑکوں کے ساتھ کسی بات پر لڑ پڑتی ہے دونوں لڑکے غصے میں آکر اپنی قمیض اتار کر کلپنا کارتک کے ساتھ دو دو ہاتھ کرنے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں ‘ کلپنا بھی
غصے میں آکر جونہی اپنی قمیض اتارنے کی کوشش کرتی ہے تواسے اپنی غلطی کا احساس ہو جاتا ہے اور اس کے ہاتھ رک جاتے ہیں اگرچہ وہ دونوں لڑکے بعد میں اس کا خوب مذاق اڑاتے ہیں اور اسے ڈرپوک سمجھتے ہیں مگرانہیں کیا معلوم کہ اس بے چاری نے مقابلے میں آنے کی ”ہمت” کیوں نہیں کی ‘ تاہم دیکھنا اب یہ ہے کہ شمیم نقوی نے سپیکر سندھ اسمبلی کی ایوان میں خواتین اراکین کی موجودگی کا احساس دلانے پر احتراماً صرف ٹوپی اتارنے پر ہی اکتفا کیا یا پھر ایوان میں ہنگامہ آرائی کی وجہ سے دیگر ممبران اسمبلی نے شمیم نقوی کا ہاتھ روک کر انہیں منع کیا۔ تاہم سوال یہ ہے کہ شمیم نقوی اس انتہا تک کیوں جا پہنچے کہ انہیں ایوان میں بیٹھی معزز خواتین ممبران بھی نظر نہیں آئیں اس کی وجہ سے دراصل ہمارے ہاں کا سیاسی پارلیمانی نظام ہے جس میں عوامی مسائل کے حل کے حوالے سے بھی ایک پشتو مقولے کے مطابق بیلچہ اور کرنڈی صرف اپنی ا پنوں ہی کی طرف چلتی ہے یا پھر اردو زبان کے محاورے کے حوالے سے آپ یہ بھی سمجھ سکتے ہیں کہ اندھا بانٹے ریوڑیاں ‘ مڑ مڑ اپنوں کو ‘ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ترقیاتی فنڈز صرف برسر اقتدار جماعت کے اراکین کو دیئے جاتے ہیں اور مخالف سیاسی حلقوں کو ”راندہ درگاہ” بنا کر رکھا جاتا ہے دراصل اس قباحت کو ہمارے سیاسی نظام میں ضیاء الحق نے گھسیڑا تھا اگرچہ انہوں نے اس ”سیاسی رشوت” میں کم از کم ریوڑیاں بانٹنے والے محاورے کا استعمال ہرگز نہیں کیا تھا اور
قومی اسمبلی کے ہر ممبر کو اس دور میں جہاں تک ہمارا حافظہ کام کرتا ہے پچاس پچاس لاکھ جبکہ صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کے لئے پچیس پچیس لاکھ کے ترقیاتی فنڈز منظور کرکے غیر جماعتی اسمبلیوں کے اراکین کی خوشنودی حاصل کرنے کا بندوبست کیا تھا ‘ اصولی طور پر چونکہ آئین میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے اس لئے ضیاء الحق کے حادثاتی موت کے بعد جب نئے انتخابات میں بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت قائم ہوئی تو انہوں نے اس غیرآئینی ‘ غیر قانونی بلکہ غیر اخلاقی”سیاسی رشوت” پر پابندی لگا دی تھی مگر ممبران کے دبائو کی تاب نہ لا کر انہیں بھی مجبوراً ان ترقیاتی فنڈز کوبحال کرنا پڑا تھا ‘ بات یہاں تک بھی رہتی تو پھر بھی کوئی بات تھی مگر بعض حکمرانوں نے اس میں مزید ڈنڈی ماری کرتے ہوئے جہاں اپنے اسمبلی اراکین پر تو فنڈز کی بارشیں برسائیں ‘اور مخالف جماعتوں کے اراکین کو اس ”نعمت غیر مترقبہ” سے محروم رکھا ‘ جبکہ وہ اسمبلیوں میں اس زیادتی پر احتجاج کرتے رہ جاتے تھے وہیں ایک اور تگڑم یہ لڑایاگیا جوحکومت مرکز اور کسی ایک یا دو صوبائی اسمبلیوں میں برسر اقتدار ہوتی وہ نہ صرف اپنے صوبائی اراکین اسمبلی بلکہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ممبران جن کا تعلق اس صوبائی حکومت کی پارٹی سے ہوتا ‘ انہیں بھی صوبائی خزانے سے فنڈز کا اجراء کرکے نہال کیا جاتا حالانکہ ایک غیر آئینی ترقیاتی فنڈ پر صوبائی اسمبلی کے اراکین کا بھی حق نہیں بنتا تھا چہ جائیکہ اپنی جماعت کے اراکین قومی اسمبلی اور اراکین سینٹ کو سیاسی بنیادوں پر فنڈز کا اجراء کرکے مخالف جماعتوں کے ممبران کا”حق”مار کر ان کے حلقے میں ترقیاتی کام کرنے میں رکاوٹیں ڈالی جاتیں ‘ لیکن کیا کیا جائے کہ یہاں تو معاملہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا ہے ‘ جو برسر اقتدار ہے وہ قومی خزانے پر صرف اپنا ہی حق فائق سمجھتا ہے ‘ ایسی
صورت میں اگر شمیم نقوی جیسے کردار سامنے آکر یہ احساس دلاتے ہیں تو کیا غلط کرتے ہیں یعنی بقول شاعر
کسی خیال سے خاموش ہوں ابھی ورنہ
تماشا کب سربازار ہو نہیں سکتا؟
تماشا تو چوہے بلی کا کھیل بھی ہے جس کا ذکر ہماری روز مرہ زندگی میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے تاہم محاوراتی زبان میں بھی اس کا استعمال ایک لطف دے جاتا ہے کہتے ہیں کہ بلی جب چوہے کا شکار کرکے اسے اپنے دانتوں میں دبا کر کسی ”گوشہ عافیت” میں چلی جاتی ہے تو وہ چوہے کو یکدم ہڑپ کرنے کی کوشش نہیں کرتی بلکہ پہلے اس کے ساتھ کھیلتے ہوئے اسے سخت تھکاتی ہے اور جب چوہا بھاگ بھاگ کر نڈھال ہوجاتا ہے تب بلی کی اشتہاء بھی اپنے نکتہ عروج پر پہنچ چکی ہوتی ہے اور اسے چوہے کو کھانے میں بہت لطف آتا ہے ‘ ہمیں ایک بار پھراپنے لڑکپن میں جھانکنے کا موقع مل گیا ہے جب بازار میں ایک ادھیڑ عمر شخص گئے کہ تقریباً ڈھائی تین انچ کے مربع نما ٹکڑے پر مٹی سے بنے ہوئے چوہے اور بلی کو لوہے کے تار سے منسلک کرکے گئے کی نچلی جانب اس تار کو دائرے کی شکل میں گھماتے ہوئے ایک مکالمہ نما گیت کا ورد کرکے یہ ”تماشا” ایک ایک آنے میں فروخت کرتا رہتا تھا ‘ اس کے الفاظ یہ ہوتے تھے”چوہے بلی کی لڑائی ‘ چوہا دوڑ بلی آئی” ۔ اسی طرح کا بیان وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے حوالے سے دیا ہے اور کہا ہے کہ گرفتاری کی جلدی نہیں ‘ چوہے بلی کا کھیل کچھ دیر جاری رہے ‘ تاہم جو معروضی حالات ہیں ان کا کیا نتیجہ نکلتا ہے یعنی جس طرح عمران خان اپنے خلاف مختلف مقدمات میں عدالت میں پیش ہونے کے بجائے عدالت سے گھاگتے ہوئے قانون کوغچے پہ غچہ دے رہا ہے ‘ اس میں وہ کب تک کامیاب ہوتا ہے۔
مل ہی جائے گا کبھی دل کو یقین رہتا ہے
وہ اسی شہر کی گلیوں میں کہیں رہتا ہے

مزید پڑھیں:  کالی حوریں