پولیس تنصیبات کو پھر خطرات

پشاورمیںانتہائی حساس ترین مقامات پر پولیس تنصیبات اور بازاروں میں دہشت گردی کے ممکنہ خطرات کے پیش نظر نئی حفاظتی پالیسی نافذ کرتے ہو ئے انتظامات پرنظرثانی کردی گئی ہے جس کے تحت ملک سعد شہید پولیس لائنز کو عام شہریوں کیلئے کھولنے کے فیصلے پر دوبار ہ نظر ثانی کرتے ہوئے پابندی برقرار رکھی گئی ہے جبکہ ٹریفک ہیڈکوارٹر میں لائسنس بنانے کیلئے آنے و الے افراد کی سختی سے جامہ تلاشی لینے کی ہدایات بھی کی گئی ہیں۔ مختلف حساس ترین تھانہ جات ، پشاور پولیس لائنز ، سنٹرل پولیس آفس سمیت ٹریفک ہیڈ کوارٹر و دیگر پولیس تنصیبات ، مقامات کی سکیورٹی سخت کی گئی ہے۔دریں اثناء پشاورہائیکورٹ نے کائونٹر ٹیرارزم ڈیپارٹمنٹ کے حکام کو ہدایت کی ہے کہ وہ پشاور میں موبائل چھیننے و دیگر جرائم روکنے کیلئے اقدامات کرے اور پشاور کو کراچی نہ بننے دیں کیونکہ اس وقت پشاور میںایسے واقعات کی بھرمار ہے اور لوگ بے چینی کی صورتحال سے دو چار ہیں۔لوگوں کو بھتہ کیلئے کالیں موصول ہوتی ہیں، اس کو کنٹرول کرنا ضروری ہے۔خیبر پختونخوا میں امن وامان کی صورتحال اور خاص طور پر راہزنی کی بڑھتی وارداتوں پر تشویش بڑھتی جارہی ہے مشکل امر یہ ہے کہ حالیہ کچھ عرصے سے خود پولیس ہی نشانہ ہے بہرحال اب اس صورتحال میں قدرے بہتری آئی ہے اس کے باوجودپولیس کو روایتی تساہل کی طرف لوٹ آنے کی بجائے جو کس رہنے اور حفاظتی اقدامات مناسب رکھنے کا عمل مسلسل جاری رکھنا چاہئے جہاں تک تطہیری آپریشن کا سوال ہے اس بلا سے چھٹکارے کے لئے صرف چوکس رہنے کا عمل کافی نہیں بلکہ اس میں ذرا نرمی آتے ہی سماج دشمن عناصر دوبارہ سرگرم ہو جاتے ہیں دہشت گردی کا خطرہ بطور خاص قابل ذکر ہے جس کا تقاضا ہے کہ قومی ایکشن پلان کے تمام نکات پرعملدرآمد کرتے ہوئے اس مشکل کے سرے سے خاتمے کی مساعی کی جائے سمجھ سے بالاتر امر یہ ہے کہ قومی ایکشن پلان کی اتفاق رائے سے منظوری کے باوجود اس کے کم ہی حصوں کو عملی جامہ پہناکر خاموشی کیوں اختیار کی گئی ہے جبکہ زیادہ ترنکات پرعملدرآمد کی اب بھی ضرورت ہے ۔ خیبر پختونخوا میں اس قسم کے عناصر سے نرم روی کے تاثرکابھی اب خاتمہ ہو جانا چاہئے اور ایسا اسی وقت ہی ممکن ہوگا جب ہرسطح پران کی سرکوبی کاعمل سرگرمی سے شروع کرکے آخری شخض کی موجودگی تک جاری رکھا جائے اور صوبہ مکمل طور پر اس قسم کے عناصرسے پاک ہو جائے ۔جاری صورتحال اورعمل ہماری پالیسیوں ‘ اقدامات اور اصلاحات پر سوالات کا باعث ضرور ہیں لیکن کم از کم اب اس طرح کی غلطیوں کے اعادے کی گنجائش نہیں اورٹھوس فیصلے کے بعد اب اس پر قیمت پرعملدرآمد کی ضرورت ہے جس کے نتیجے میں ان عناصر کا مکمل صفایا ہو اور ان کے ٹھکانوں کے خاتمے سمیت ان کے حامیوں کوبھی قانون کا سامنا کرنا پڑے۔

مزید پڑھیں:  چوری اور ہیرا پھیری