طالب علموں پر بہیمانہ تشدد

بڈھ بیر کے ہائی سکول میں ٹیچر کی طلباء پر تشدد کے واقعے کی محکمہ تعلیم کی جانب سے تحقیقات کے احکامات جاری کر دیئے گئے ہیں اور اس حوالے سے کمیٹی بھی تشکیل دے دی گئی ہے ۔ ویڈیو میں ایک استاد کو بچوں پر بہیمانہ تشدد کرتے دیکھا جا سکتا ہے ۔اسی طرح کی صورتحال میں یہ یاد دلانا مضحکہ خیز ہوگا کہ اس کی قانونی طور پرممانعت ہے ۔لیکن اس ممانعت کی دھجیاں اڑانے کے آئے روز کے مظاہر کوئی پوشیدہ امر نہیں بہرحال جاری ویڈیو میں استاد کسی ایک طالب علم پر پڑھائی یاکسی اور وجہ سے تشدد نہیں کر رہا ہوتا بلکہ آٹھویں ‘ دسویں کے طالب علم ایک قطار میں عمارت میںداخل ہو رہے ہوتے ہیں جہاں دروازے پر کھڑے استاد بڑی لاٹھی لئے ہر طالب علم کی کمر ‘ تشریف اور ٹانگوں پرایک ایک دو دو ضربیں لگا رہا ہوتا ہے اور وہ اس قدر متشدداور ذہنی مریض معلوم ہوتا ہے کہ ان کو اپنے شاگردوں پر نہ تو ذرا رحم آتا ہے اور نہ ہی وہ ان کی عزت نفس کی اس بری طرح پامالی میں کسی قسم کی کوتاہی کرتا ہوا نظر آتا ہے اس کی باڈی لینگویج سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ہر طالب علم کو پوری قوت اور نفرت کے ساتھ تشدد کا نشانہ بنا رہا ہوتا ہے اس واقعے کی وجوہات پر غور کرنے کے باوجود کسی نتیجے پر پہنچنا مشکل ہے کہ اس طرح مجموعی سزا دینے کی وجہ کیا ہو سکتی ہے سرکاری سکولوں میں اس طرح کے تشدد اور بچوں کی عزت نفس کی پامالی کے باعث والدین اور بچے ان سکولوں کے قریب بھی جانے کو تیار نہیں ہوتے اس طرح کے وحشیانہ ماحول میں ملنے والی تعلیم و تربیت سے معاشرے میں متشدد کرداروں میں مزید اضافے کاباعث ہی ہوسکتا ہے سرکاری سکولوں میں خود سرکاری سکولوں کے اساتذہ بھی اپنے بچوں کوپڑھانے پرتیار نہیں ہوتے جب خود ان کے بچے نجی سکولوں میں پڑھیں گے توباقی ماندہ بچوں سے اس طرح کا سلوک اس لئے بھی آسان عمل ہے کہ ان بے چاروں کاپوچھنے والا کوئی نہیں تحقیقات کی زحمت سے محکمہ تعلیم کے حکام فارغ ہوں تو بہیمانہ سزائوں کے تدارک پر بھی توجہ دیںگے۔ توقع کی جانی چاہئے کہ اس واقعے کی تحقیقات کے بعد نہ صرف تشدد کرنے والے استاد بلکہ اس کے ساتھ ساتھ سکول کے پرنسپل اور وائس پرنسپل کے خلاف بھی تادیبی کارروائی کی جائے گی سکول میں اگرنظم وضبط کا کوئی اصول لاگو ہوتا تو سکول کے درجنوں طالب علموں پر اس طرح کھلے عام تشددکا مظاہرہ سامنے نہ آیا ۔واقعے کی تحقیقات کے بعد نتائج سے آگاہی اس لئے بھی ضروری ہے کہ سرکاری سکولوں کے اساتذہ اس سے عبرت حاصل کریں۔

مزید پڑھیں:  ویج مجسٹریٹ کی تعیناتی