انتخابات خطرے میں

وہی ہوا جس کا خدشہ تھا آئی ایس آئی، آئی بی اور سی ٹی ڈی نے حملوں کے خدشات کے پیش نظر الیکشن کمیشن کو پنجاب اور خیبر پختون خوا میں انتخابات نہ کرانے کا مشورہ دے دیاہے ۔ چیف الیکشن کمشنر کی زیر صدارت انتخابات کے انعقاد اور سکیورٹی سے متعلق ایک اہم اجلاس میںالیکشن کمیشن نے خیبر پختونخوا اور پنجاب میں انتخابات کے لیے 3لاکھ 53ہزار اضافی نفری کا مطالبہ کیا ۔ حکام کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ پنجاب میں پولیس کے علاوہ 2 لاکھ 97 ہزار دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار درکار ہوں گے جبکہ خیبر پختون خوا میں 56 ہزار مزید نفری درکار ہوگی۔مستزادڈی آر اوز انتہائی حساس پولنگ اسٹیشنز کی نشاندہی کریں گے جبکہ انتہائی حساس پولنگ اسٹیشن میں سی سی ٹی وی کیمروں کے علاوہ دیگر اداروں کے سکیورٹی اہلکاروں کی بھی ضرورت ہوگی سکیورٹی اداروں نے الیکشن کمیشن کو تھریٹس کے حوالے سے آگاہ کیا اور سیکورٹی اداروں نے موجودہ سکیورٹی تھریٹس کی بنیاد پر اس وقت الیکشن نہ کروانے کا مشورہ دے دیا۔ دوران اجلاس خفیہ اداروں کی جانب سے انتخابات کرانے کی متفقہ طور پر مخالفت کردی گئی۔ آئی ایس آئی، آئی بی اور سی ٹی ڈی حکام نے رائے دی کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات کے انعقاد کے لیے ماحول سازگارنہیں۔اطلاعات ہیں کہ الیکشن کمیشن آئندہ ہفتے اس بریفنگ پر فیصلہ کرے گا۔سکیورٹی اداروں کی اس بریفنگ اور سیکرٹری خزانہ کی طرف سے درکار فنڈز کا بندوبست کرنے سے صریح لفظوں میں تو نہیں لیکن دبے لفظوں یا پھر اشاروں کنایوں میں اسکا اظہار غرض ہر ادارے اور محکمے کی جانب سے ہاتھ کھڑے کرنے کے بعد انتخابات کی عدم خواہاں نگراں حکومتوں کے لئے اچھا بہانہ ہوسکتے ہیں جب اس طرح کی صورتحال کے باعث عدالت کے سامنے رکھا جائے تو عدالت کیا احکامات دے گی اس حوالے سے کوئی اندازہ لگانا ممکن نہیں ساتھ ہی سیاسی قائدین کو درپیش خطرات کی بھی باز گشت شروع ہوگئی ہے ماضی میں انتخابی مہم کے دوران بے نظیر بھٹو کی شہادت کے واقعے کی مثال موجود ہے مگر ان تمام عوامل اور وجوہات کو سامنے رکھتے ہوئے بھی ملک میں سخت حالات اور بدترین دہشت گردی کے واقعات کے دنوں میں بھی ملک میں عام انتخابات کرانے کی وہ مثال موجودہے جس کے مقابلے میں اس وقت کے حالات کس طرح سنگین اور مشکل نہیں ایسا لگتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کاعزم و حوصلہ شاید اب وہ نہیں رہا جس کا ثبوت وہ قبل ازیں دے چکے ہیں البتہ ممکن ہے کہ سکیورٹی اداروں کے پیش نظر جو صورتحال ہے اس کا ہمیں علم اور ادراک نہ ہوا ایسا ہو بھی اس لئے نہیں سکتا کہ ہم سامنے کی صورتحال پر معروضی نظر ڈال کر کسی امر کا ا ندازہ لگا لیتے ہیں معروضی حالات ایسے نہیں کہ سکیورٹی کے انتظامات نہ ہوسکیں اور کسی دبائو اور خطرے کے باعث انتخابات کاانعقاد نہ ہوسکے ۔ بار بار کے انتخابات اور مختصر مدت کے لئے انتخابات پر آنے والے اخراجات کاعذر بہرحال معروضی صورتحال میں ایک قابل قبول عذر گردانا جا سکتا ہے ملک میں انتخابات کاالتواء کوئی اچھنبے کی بات نہیں ماضی میں عدالتیں بھی اس طرح کے امر کے تائیدی احکامات دے چکی ہیں اور انتخابات کا مقررہ وقت پر انعقاد نہ ہونا اپنی جگہ ‘ملک میں آئین و دستور سے متصادم صورتحال کا طویل شکار ہونے کی مثالیں بھی موجود ہیں لیکن یہ بھی ا نتخابات کا انعقاد نہ کرنے کاکوئی جواز نہیں ملک میں آئین اور قانون کی موجودگی اور اس پرعملدرآمد ہی میں ملکی معاملات کا حل اور آگے بڑھنے کا راستہ مل سکتا ہے جاری صورتحال اس حد تک مایوس کن ہیں کہ اس وقت مقررہ وقت پر انتخابات کے باوجود صورتحال میں کسی بہتری کی کوئی امید نہیں بلکہ اس سے ایسے نئے مسائل پیدا ہونے کے خدشات ہیں کہ اس کے نتیجے میں ملک گیرعام انتخابات کے انعقاد کے لئے بھی شاید حالات ساز گار نہ رہیں۔ ان تمام عوامل اور امور کومد نظررکھ کر ضرورت اس امر کی نظر آتی ہے کہ سرکاری مشینری کی رپورٹیں اور سفارشات کوایک طرف رکھ کر سب سے پہلے سیاست دان آپس میں مل بیٹھ کر ان عوامل پر غور کرکے اتفاق رائے کی کوئی صورت نکالیں اختلافات کا خاتمہ تو ممکن نظرنہیں آتا مگر کم از کم حالات کو انتخابات کے لئے سازگار بنانے کی اپنے حصے کی ذمہ داری تو نبھائیں یاپھر اس امر پراتفاق کرلیا جائے کہ انتخابات کا کچھ عرصے کے لئے التواء کرکے ملک گیر عام انتخابات پر بات چیت کی جائے اور اس کی تاریخ کااعلان کرکے موجودہ انتخابات کے انعقاد کو موخر کرنے کا راستہ ہموار کیاجائے ایسا کیا جانا ناممکن نہیں شرط یہ کہ سیاسی عمائدین اس پرآمادہ ہوں۔

مزید پڑھیں:  چوری اور ہیرا پھیری