بات چھیلے رکھڑی گاٹھ چھیلے چکنا

بات میں جتنی بحث بڑھاؤ اتنی ہی اس میں باریکیاں نکلتی چلی آتی ہیں، اسی طرح سخت بات دوسرے کے دل پر بہت برا اثر پیدا کرتی ہے، پاکستان کا سیاسی ماحول محولہ بالا عنو ان کی گر فت میں آتا ہے، جس کو دیکھو وہ بات وہی کرتا ہے یا تسلیم کرتا ہے جو اس کے مزاج کے مفاد میں ہو، دانشور قلقلا خان کا کہنا تھا کہ اس مرتبہ انتخابات کے بارے میں ویسی سرگرمی نہیں دکھائی دے رہی ہے جیسا کہ عمو ماً دیکھنے کو ملتی ہے جس کی ایک ہی وجہ ہے کہ بحث و مباحثہ کے اس دور میں ایسی بے یقینی پیدا ہوگی ہے کہ کچھ سمجھ نہیں لگ رہا ہے کہ اگلے لمحہ کیا ہونے جا رہا ہے، پرویز مشرف کو عدلیہ کی طرف سے تین سال میں انتخابات کراکر اقتدار منتخب نمائندوں کو دینے کی سہو لت مل گئی تھی اس کے ساتھ ہی عدالت نے پرویز مشرف کو آئین میں از خود ترمیم کا اختیار تفویض کر دیا تھا، حیرت ہوئی تھی کہ فرد واحد جس نے عوام کی منتخب حکومت پلٹ دی اس کو یک طرفہ طور پر آئین جیسی مقدس دستاویز میں ترمیم کا اختیار دے دیا گیا جب کہ مشرف حکومت نے اس اختیار کی استدعا بھی نہیں کی تھی اس سے بڑھ کر آمریت کا اور کیا استحکام ہو سکتا ہے۔ یہا ں مقصود یہ کہنا ہے کہ عوام سن گن میں مبتلا ہو کر رہ گئی ہے، یقینی طور پر فضاء چھٹ نہیں پا رہی ہے کہ کل کیا ہونے والا ہے، جب سے پی ڈی ایم کے اتحادیوں کی حکومت آرہی ہے یہ ہی آوازہ آتا ہے کہ ملک دیوالیہ ہونے کو جا رہا ہے یوں پورا ایک سال بیتنے کو ہے مگر یہ آوازہ صدا بصحرا ہی محسوس کیا جا رہا ہے، عالمی سطح پر بھی ایسی ہی لن ترانیاں ہوتی رہتی ہیں، ایک سوال کے قریب ہونے کو ہے، آئی ایم ایف قرضہ کی اقساط کی منظوری پر دستخط کرنے سے مسلسل کترا رہا ہے شاید وہ چاہتاہے کہ پاکستان سچ مچ دیوالیہ کنارے
پہنچ جائے تاکہ مزید اپنی شرائط کو تسلیم کر لے، بہانہ یہ ہے کہ پاکستان نے معاہدے کی خلا ف ورزی کی ہے جب ان سے کہا جاتا ہے کہ خلاف ورزی عمران کے دور میںہوئی تو وہ مان کر ہی نہیں دے رہے کہ ان کا موقف ہے کہ وہ قرض کسی شخصیت کو نہیں دیتے حکومت کو دیتے ہیں، بات تو درست ہے۔ اب لے دے کر آس دوست ممالک ہی رہ گئے ہیں، پاکستان کے دنیا میں تین دوست ایسے ہیں جو حکومت یا شخصیت کی بنیاد پر پاکستان کے دوست نہیں ہیں وہ پاکستان کے عوام کے دوست ہیں، ان میں سعودی عرب ، ترکی ، چین شامل ہیں لیکن پی ڈی ایم کی حکومت سے قبل سبکدو ش ہونے والی حکومت کی خارجہ پالیسی کی وجہ سے اس گہری دوستی میں جو دراڑ پڑی وہ اب تک پٹ نہیں پائی ہے تاہم سننے میں حوصلہ افزاء بات آتی ہے ابھی حال میں چین کی جانب سے پاکستان کی اقتصادی طور پر ہا تھ پکڑنے کی بات سننے کو ملی ہے اسی طر ح سعودی عرب کی طرف سے بھی خوش خبری سنائی دی ہے، چین اور سعودی عرب نے عمر ان نیازی کے دور میں پاکستان کی طرف سے ہاتھ باندھ لئے تھے گو کہ جب عمر ان خان نئے نئے مسند صریر آراء ہوئے تھے تو بڑ ا دھوم دھڑکا ہوا تھا حتیٰ کہ وزیر اعظم سعودی عرب محمد بن سلیمان سے یکجہتی کے اظہار کے لئے ان کی پاکستان آمد پر سابق وزیراعظم عمران خان پروٹوکول سے ہٹ کر شہزادہ محمد بن سلمان کی سواری کے ڈرائیور بن گئے تھے، پھر دوستی ایسی بڑھی کہ جب اقوام متحدہ کی جنرل کونسل کے اجلاس میںشرکت کے لئے سابق وزیراعظم پاکستان نیویارک جا رہے تھے تو محمد بن سلیمان اپنا طیارہ لانے لے جانے کے لئے عطا کر دیا تھا مگر نہ جانے کیا ہو ا کہ واپسی پر سعودی شہزادے نے جہا ز اڑان ہی میں طیارہ واپس مانگ لیا اور سابق وزیراعظم پاکستان کو عام پرواز سے واپس ہونا پڑا، سعودی دوستی پکی کیا کرتے ہیں جب میاں نواز شریف کے دور میں پاکستان نے ایٹمی دھماکہ کر کے عالم اسلا م کو ایک جوہری قوت کی توانائی فراہم کی تو انہی دنوں نواز شریف سے سارا عالم اسلا م بہت خوش نظر آیا حتٰی کہ اسی عرصہ میں نواز شریف غالباً جنیوا ایک اجلا س میں شرکت کے لئے گئے تو سعودی شاہ فہد نے پیغام دیا کہ وہ واپسی پر سعودی عرب ٹھہرتے جائیں لیکن نواز شریف نے معذرت کی، مصروفیا ت کے شیڈول کے مطابق ایسا ممکن نہیں لیکن جب نواز شریف جنیوا سے واپس آرہے تھے تو انہیں اطلاع ملی کہ کچھ طیارے فضاء میں ان کے طیا رے کا حلقہ بنا چکے ہیں، معلوم ہوا کہ سعودی طیارے ہیں شاہ فہد نے حکم دیا ہے کہ فضاء سے نواز شریف کو طیاروںکی جھرمٹ میں لے آؤ، پرویز مشرف کی عطاء کردہ جلاوطنی میں نواز شریف کی ان کے خاندان سمیت میزبانی بھی کی، اب یہ اطلا ع ہے کہ نواز شریف کو رمضان کے آخری عشرہ میں شاہی مہمان کی حیثیت سے دعوت دی ہے جس میں ان کے ہمراہ شہباز شریف و مریم نواز کے علاوہ دیگر افراد بھی شرف مہمان نواز سے لطف اٹھائیں گے، اس صورت حال میں امید پیدا ہو رہی ہے کہ نواز شریف اپنے قیام کے دور شاہی مہمان ہونے کے ناتے پاکستان کو اقتصادی بھنور سے نکالنے کے لئے اپنے اثرر و سوخ کو بڑھوتی دینے میںکامیاب ہو جائیں گے کیوں کہ شخصیات کی آپس کی چاہت کے نتائج پر اثر ثابت ہوتے ہیں، جس وقت شاہی مہمان داری کی بات چل رہی ہے اسی وقت یہ دیکھنے کو ملا کہ امریکا میں لابنگ فرمز کو دیئے گئے لاکھوں ڈالر دریا برد ہوگئے کیوں کہ اپنی تازہ اشاعت میں عالمی شہرت کے میگزین ٹائم نے عمران خان کے بارے میں جو مضمون شائع کیا ہے وہ ان کی کردار سازی کو نقصان پہنچانے کے مطابق ہے ، یہ عالمی شہرت کا میگزین کسی زما نے میںپاکستان میں لاکھوںکی تعد اد میں پڑ ھا جا تاتھا اور عالمی سطح کے لیڈر آج بھی یہ خواہش رکھتے ہیں کہ ان کے بارے میں میگزین میں کوئی مضمون شائع ہو اور ٹائٹل پر تصویر چھپ جائے تو یہ بہت بڑی خوش خبری ہوتی ہے جیسے ہی عمر ان خان نیازی کے بارے میں مضمو ن شائع ہوا تو یوتھئیوں نے بغلیں بجانا شروع کر دیں لیکن جب ان کی نظر میگزین کے سرورق پر پڑی تو دنگ رہ گئے کیوں کہ لفظ میگزین کا ایم کا ہندسہ عمران خان کے سر پر اس طرح نظر آیا جیسے کہ یورپ میں ایک شخصیت کی سنگوں والی تصویر پیش کی جاتی ہے، پھر اندرکے صفحات میںمضمون جو شائع ہوا ہے اس کا لب لباب یہ ہے کہ میگزین نے پاکستان کے تمام بحرانوں کا ذمہ دار کپتان کو گردان دیا ہے اس میں کیا ہے اس بارے میں اگلی گفتگو میں نظر ڈالی جائے گی۔

مزید پڑھیں:  ویج مجسٹریٹ کی تعیناتی