Editorial 3

جب کوئی سایہ نہیں ملتا تو یاد آتی ہے ماں

ماؤں سے اظہارمحبت اور انہیں خراج تحسین پیش کرنے کیلئے پاکستان سمیت دنیا بھر میں دس مئی کو ماؤں کا عالمی دن جوش وخروش سے منایا گیا، جس کا مقصد محبت کے خالص ترین رنگ لئے ماں کے مقدس رشتے کی عظمت واہمیت کو اُجاگر کرنا اور ماں کیلئے عقیدت، شکر گزاری اور محبت کے جذبات کو فروغ دینا ہے۔ ماؤں کا دن منانے کا آغاز ایک امریکی خاتون اینا ہاروس کی کوشش کا نتیجہ ہے۔ اینا ہاروس چاہتی تھیں کہ اس دن کو ایک مقدس دن کے طور پر سمجھا اور منایا جائے۔ ان کی کوششوں کے نتیجے میں 8مئی1914 کو امریکا کے صدر ووڈرو ولسن نے مئی کے دوسرے اتوار کو سرکاری طور پر ماؤں کا دن قرار دیا۔ تب سے لیکر آج تک مئی کا دوسرا اتوار بہت سے ملکوں میں ماؤں کے دن کے طور پر منایا جا رہا ہے۔ یہ دن وہ موقع ہوتا ہے جب لوگ اپنی ماؤں کیلئے اپنی محبت اور احترام کا اظہار کرتے ہیں۔ اس دن لوگ اپنی ماؤں کو یہ احساس دلا سکتے ہیں کہ وہ ان کیلئے ہمیشہ اہم تھیں اور رہیں گی اور یہ کہ وہ ان سے ہمیشہ محبت کرتے رہیں گے۔ پاکستان میں اس دن کے حوالے سے لوگ دوطبقوں میں تقسیم نظرآتے ہیں، ایک وہ جو اس دن کو ماؤں کی عظمت کیلئے اہم قرار دیتے ہیں جبکہ دوسرے طبقے کا کہنا ہے کہ ماؤں سے محبت کیلئے ایک دن مختص کرنے کا کیا جواز کیونکہ ماں جیسی عظیم ہستی ہمیشہ محبت وتکریم کے لائق ہے۔ ماں ایک ناقابل تسخیر محبت والفت کا حسین شاہکار اور اولاد کے تئیں بے غرض ہمدردی وشفقت کا روشن مینار ہے، جس میں پیار وممتا کی بے پناہ مٹھاس، ایثار وقربانی کا انمول احساس اور دل چسپی ودل بستگی کا ہر سامان پوری فراوانی کیساتھ اس طرح جلوہ گر ہے کہ دنیا کی ہر طاقت وقوت، ہر چاہت واُلفت اس کے آگے ہیچ ہے۔ ماں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے لئے ایک عظیم نعمت ہے جس کا کوئی بدل نہیں، ماں کے بغیر اس دنیا میںکچھ بھی نہیں۔ ماں کائنات میں انسانیت کی سب سے قیمتی متاع اور عظیم سرمایہ ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ماں کے پاؤں تلے جنت ہے۔ حضرت شیخ سعدی نے کہا ”محبت کی ترجمانی کرنے والی اگر کوئی چیز ہے تو وہ صرف ماں ہے”۔ مشہور مفکر اور شاعر علامہ اقبال نے کہا ”سخت سے سخت دل کو ماں کی پرنم آنکھوں سے موم کیا جاسکتا ہے”۔ الطاف حسین حالی نے کہا ”ماں کی محبت حقیقت کی آئینہ دار ہوتی ہے”۔
مشہور مغربی دانشور جان ملٹن نے کہا ”آسمان کا بہترین اور آخری تحفہ ماں ہے”۔ اسی طرح شیلے نے کہا ”دنیا کا کوئی رشتہ ماں سے پیارا نہیں”۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے دانشوروں اور عالمی شہرت یافتہ شخصیات نے ماں کی عظمت اور بڑائی کا اعتراف کیا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ ماں ہی وہ عظیم ہستی ہے جس کے جذبوں اور محبت میں غرض نہیں ہوتی، جب اولاد اس دنیا میں آنکھ کھولتی ہے تو اس کیلئے خود کو وقف کر دیتی ہے جب بچہ بول بھی نہیں پاتا اس کی ضرورت کو سمجھتی اور پورا کرتی ہے پھر اسے بولنا سکھاتی ہے پھر اُنگلی پکڑ کر چلنا سکھاتی ہے ہر آواز پر دوڑی چلی آتی ہے اپنی آغوش میں سمیٹ لیتی ہے، اولاد کی خوشی میں خوش اور اس کے دکھ میں دکھی ہوتی ہے، عمر کے ہر دور میں ساتھ دیتی ہے اور دعاگو رہتی ہے۔ ماں احسانات، احساسات، خوبیوں اور جذبات کا وہ بے مثال مجموعہ ہے جو سارے زمانے کے حالات اور موسم کی سختیاں خود سہتی ہے مگر اس کا ہر لمحہ اپنی اولاد کیلئے فکر ودعا کرتے گزرتا ہے۔
ماں وہ عظیم ہستی ہے جس کے بنا گھر ایک قبرستان کی مانند ہے چاہے وہ گھر شیش محل ہی کیوں نہ ہو۔ ہر ماں اپنی اولاد کی کامیابی چاہتی ہے بلکہ ہمیشہ یہ تمنا رہتی ہے کہ اس کا بیٹا بادشاہوں جیسی زندگی گزارے۔ اگر خدانخواستہ اولاد کی وجہ سے ماں کے دل کو صدمہ پہنچتا ہے تو وہ اولاد کبھی بھی کامیاب نہیں رہتی۔ ایسے انسان کا معاشرے میں بھی کوئی مقام نہیں رہتا۔ اس حالت میں اپنا مقام پانے کیلئے ماں کو منانے کے سوا کوئی حل نہیں۔ اس کی کامیابی کا راز ماں کی دعاؤں میں ہے، ویرانوں میں بھٹکی ہوئی اولاد کیلئے ماں کی دعائیں کامیابی کی کرن ثابت ہوتی ہیں۔
شاہین اقبال اثر نے ماں کی عظمت بارے کیا خوبصورت اشعار کہے ہیں:
زندگی یوں لگی مجھ کو ماں کے بغیر
جس طرح ہو زمیں آسماں کے بغیر
ایسا محسوس ہوتا ہے ماں کے بغیر
جسم ہی جسم ہو جیسے جاں کے بغیر
کس طرح زیست گزرے گی ماں کے بغیر
تن جھلس جائے گا سائباں کے بغیر
فکر ہے منجمد ایسی ماں کے بغیر
جیسے حسنِ تخیل زباں کے بغیر
روح بنجر ہوئی ایسی ماں کے بغیر
جیسے دریا ہو آبِ رواں کے بغیر
دل کہ ہے مضطرب ایسا ماں کے بغیر
جیسے کوئی جبیں آستاں کے بغیر
ایسا ویران ہے قلب ماں کے بغیر
جس طرح کوئی مسجد اذاں کے بغیر
زیست صحرا صفت ایسی ماں کے بغیر
پھول جیسے اثر گلستاں کے بغیر
ماؤں کے عالمی دن کے موقع پر ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ والدین ایک سائے کی طرح ہیں جن کی ٹھنڈک کا احساس ہمیں اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک یہ سایہ سر پر موجود رہتا ہے، جونہی یہ سایہ اُٹھ جاتا ہے تب پتہ چلتا ہے کہ ہم کیا کھو بیٹھے ہیں۔

مزید پڑھیں:  عسکریت پسندوں سے مذاکرات؟