سانحہ قصہ خوانی اور ا نگریزوں کا کردار

یوں تو برصغیر پر مکمل دسرس کے بعد بدیسی حکمرانوں(انگریزوں) نے ہندوستان کے شہریوں پر بے پناہ مظالم ڈھائے ،1857ء کی جنگ آزادی کوغدر قرار دے کر مزاحمت کاروں کے خلاف انسانیت سوز اقدام کئے ، آزادی کے متوالوں کوتوپوں کے آگے باندھ کر انہیں اڑایا ، ہزاروں کی تعداد میں آزادی پسندوں کو قیدو بند میں ڈالا ، جزائر انڈمان(کالا پانی) بھیج عر انتقام کا نشانہ بنایا ، تاہم اس کے بعد جب بھی برصغیر کے حریت پسندوں نے انگریز استعمار کے خلاف آواز بلند کرنے کے لئے اجتماعات منعقد کئے تو ان کو نشان عبرت بنانے کے لئے ان پر اجتماعی تشدد کاکوئی موقع ضائع نہیں کیا ، اس حوالے سے دو بڑے واقعات ہماری تاریخ کا حصہ ہیں ، جن میں سے ایک جلیانوالہ باغ میں نہتے عوام پر جنرل ڈائر کی نگرانی میں حملہ جبکہ دوسرا سنگین پشاور کے قصہ خوانی بزار کا سنگین خونین واقعہ تھا ، ان کے علاوہ بھی برصغیر کی تاریخ دوسرے چھوٹے بڑے واقعات سے بھری پڑی ہے ، تاہم محولہ دونوں واقعات کی سنگینی کا کوئی مد مقابل نہیں ، بھارت کی حکومت نے چند برس پہلے جلیانوالہ باغ ک سانحے پر برطانیہ سے معذرت کروانے میں کامیابی حاصل کی تاہم بدقسمتی سے سانحہ قصہ خوانی کے حوالے سے آج تک کسی بھی حکومت نے برطانیہ کے حکمرانوں سے معذرت کرنے کا مطالبہ نہیں کیا ، اے این پی کے مرکزی صدر نے اپنے تازہ بیان میں اس حوالے سے شہدائے قصہ خوانی کو خراج تحسین پیش کرتے کہا ہے کہ 94برس قبل برطانوی سامراج نے 500 نہتے خدائی خدمتگاروں کو شہید اور زخمی کیا تھا ، شہداء کو آجتک انصاف نہیں ملا ، اس موقع پر انہوں نے گولیاں چلانے سے انکارویرچند رہ سنگھ اور گڑھوالی رائفلز رجمنٹ کوخراج تحسین پیش کیا برطانیہ کو 94 برس قبل کی جانی والی غلطی تسلیم کرنی چاہئے ، ان کا یہ مطالبہ بالکل درست ہے اور برطانیہ کوجلیانوالہ باغ کے واقعے پر معذرت کی طرح سانحہ قصہ خوانی پربھی معافی طلب کرنی چاہئے تاکہ شہداء کو انصاف مل سکے۔

مزید پڑھیں:  حصول حقوق کا عزم اور اس کے تقاضے