جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

صرف سیاست ہی نہیں معدودے چند کے علاوہ ہماری زندگیوں سے بھی دین جدا ہو چکا ہے۔ معاملات زندگی پر غور کریں تو دینی معاملات پر عمل کا فقدان ملتا ہے۔ زیر بحث موضوع سخن شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے ایک شہرہ آفاق شعر کا مصرع ثانی ہے ۔ مکمل شعر کچھ ایسے ہے کہ
جلال بادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تورہ جاتی ہے چنگیزی
ویسے دیکھا جائے تو اقبال کا یہ شعر نہایت معنی خیز ہے ۔ "دین” زندگی گزارنے کا وہ لائحہ عمل ہے جو رب ذوالجلال نے سلسلہ رسالت کے ذریعے بنی نوع انساں کی رشد و ہدایت کے لیے مرتب کیا جس سے روگردانی صرف اور صرف تباہی وذلالت کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے ۔ "سیاست” سے مراد نظام مملکت کو خوش اسلوبی سے چلانا ہے تاکہ تمام انسان امن و سکوں سے زندگی بسر کر سکیں ۔ سیاست انسانی تہذیب و تمدن کا سب سے اہم شعبہ رہا ہے جبکہ چنگیزی لاقانونیت کا نام ہے ۔ ہمارے ملک کی موجودہ صورتحال اظہر من الشمس ہے ۔ اگر حکمران طبقہ اللہ اور اس کے رسول کی تعلیمات و احکامات کا ماننے والا نہ ہو توان سے کسی بھلائی کی توقع رکھنا بے سود ہے ۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور چونکہ سیاست بھی اسلامی معاشرے کا ایک اہم حصہ ہے لہذا اگر ملک کو امن کا گہوارہ بنانا مقصود ہو تو فوری طور پر سیاست کو دین کی مقرر کردہ اصولوں کا پابند بنانا ہوگا ۔ قرآن کریم میں سور الحجرات آیت نمبر1میں اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ”تمام معاملات زندگی میں اللہ اور اس کے رسول کی بتائی ہوئی حدود سے آگے نہ نکلو”۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ اسلامی آئین کی اساسی دفعہ ہے جس کی پابندی سے نہ تو مسلمانوں کی حکومت مبرا ہے نہ پارلیمنٹ اور نہ عدالت -تاریخ کی ورق گردانی سے عیاں ہے کہ جب بھی حکمرانوں نے عوام کے حقوق غصب کیے تو دشمنی ، نفرت اور بغاوت کو بالیدگی ملی۔
وہ واقعہ تو سنا ہوگا کہ نبی کریم ۖ جب حضرت معاذ بن جبل ویمن کا حاکم بنا کر روانہ کر رہے تھے تو آپ نے ان سے پوچھا کہ تم کس چیز کے مطابق فیصلے کروگے ؟ انہوں نے جواب دیا کتاب اللہ کے مطابق ۔ آپۖ نے پوچھا اگر کتاب اللہ میں کسی معاملے کا حکم نہ ملے تو پھر کس چیز کی طرف رجوع کروگے ؟ انہوں نے کہا سنت رسول کی طرف آپۖ نے پوچھا اگر اس میں کچھ نہ ملے تو انہوں نے عرض کیا پھر میں خوداجتہاد کروں گا ۔ اس پر حضورۖ نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا شکر ہے اس خدا کا جس نے اپنے رسول کے نمائندے کو وہ طریقہ اختیار کرنے کی توفیق بخشی جو اس کے رسول کو پسند ہے ۔ کیا تاریخ کے یہ اوراق میرے بیاں کی تصدیق کے لیے کافی نہیں ہے ؟ آج عوام بھوک سے بلک بلک کر مررہی ہے ۔روٹی مہنگی جبکہ عزت سستی ہے ۔ ملک کی نصف سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے ۔ نام کے مسلمان اور شیطان کے چیلے جنہیں اسی عوام نے ووٹ دے کر حکومت کیاختیارات سونپے تھے آج صم بکم عمی بہرے گونگے اندھے بنے بیٹھے ہیں ۔ غریب کی سسکیاں ان کے ایوانوں تک پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ دیتی ہیں تو وہ کونسی عدل رنجیر کھٹکٹائے ؟ اگر انہیں یاد دہانی کروا دی جائے کہ روز محشر ان کا محاسبہ ہونا ہے تو یا تو وہ حکومت کرنا قبول ہی نہ کرتے اور اگر رفاع عامہ میں ایسا کرتے بھی تو رات کو چین کی نیند نہ سو پاتے ۔ حکمرانی کا نشہ سب نشوں سے تیز ہوتا ہے لیکن جب حکمران کے ہاتھ پائوں ، سوچ و عمل یا قول وفعل اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہوں تو وہ سیدناعمر فاروق اللہ بن کر ایک بیوہ اور اس کے بچوں کے لیے آٹے کی بوری خود اپنی پیٹھ پر اٹھا کر لاتا ہے۔ یہ سیاست کا دین کے تابع ہونے کا نتیجہ تھا ۔ دیکھا جائے تو خلافت راشدہ کے تیس سالہ دور میں دین اور سیاست میں مکمل مطابقت تھی ۔ بعد میں اموی حاکمین نے اسلامی اصولوں سے انحراف کرکے ڈکٹیٹر شپ کے دنیاوی طریقہ کار کو منتخب کیا تودین اور سیاست میں دیوار کھڑی ہوگئی۔ دین کی اصل روح سے ناآشنا لوگ سلطنت پر قابض ہوگئے اور صرف دنیاوی فوائد سمیٹنے لگے بلکہ نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ اگر کوئی عالم دین سیاست کی بات کرتا ہے تو ہم کہتے ہیں اسے سیاست سے کیا لینا دینا ؟تاہم سیاست اگر شرعی حدود کے اندر رہ کر کی جائے تویہ انسانوں کے لیے باعث رحمت ہے اور اگر محض اقتدار کی ہوس مطلوب ہو تو یہ کھلی درندگی ہے ۔ حکومت چاہے کسی شاہ کی ہو یا جمہوری دونوں ہی خطرناک ہے لیکن اگر دینی اقدار کو پائمال نہ کیا جائے تو حکومت عوام کے لیے سود مند ہوں گی اور ایسا تبھی ممکن ہے جب دل میں خوف خدا ہو جو کہ آج کل ناپید ہے۔ شکسپیر نے کہا تھا کہ” تمام طاقتوں میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے اور مکمل اختیارات والی طاقت بالکل ہی بگڑ جاتی ہے ۔” لہذا دین کو سیاست سے علیحدہ کرنا بے وقوفی کے مترادف ہے اور دین ہی سیاست کو بے راہ روی سے روک سکتا ہے ۔ جیسے ترکی کی حکومت ، عرب امارات ، اور مشرق وسطی کے ممالک مذہب اور دین کی شرعی پیروی کرتے ہوئے نظام حکومت چلا رہے ہیں اور وقت و حالات کے مطابق "قیاس اور اجماع ” کے ذر یعے سماجی ، سیاسی اور معاشی رکاوٹوں سے راستے بنا کر اپنی سیاسی نظام کو مستحکم اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرچکے ہیں. ایسا ہی نظام اگر ہمارا ملک پاکستان بھی اپنا لیں تو وسائل سے بھرپور ملک ترقی یافتہ ممالک میں جلد اپنا مقام بنا لے گا ۔بقول اقبال
حیرت ہے کہ تعلیم و ترقی میں ہے پیچھے
جس قوم کا آغاز ہی اقرا سے ہوا تھا

مزید پڑھیں:  اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی سعی