”دوحہ طرز مذاکرات” سیاسی بحران کا حل؟

پاکستان ایک سیاسی بحران کا شکار ہے اور اس بحران کو طاقت سے حل کرنے کا ہر فارمولہ شدت اور حدت کو بڑھا رہا ہے ۔عمران خان پر دوسو مقدمات قائم کرکے اور غیر معینہ مدت کے لئے جیل میں ڈال کر مسئلہ حل نہ ہو سکا ۔ٹی وی چینلز سے اس کا نام ہٹا نا بھی بے سود رہا ۔انتخابات میں سیاسی انجینئر نگ کا ہر انداز اپنانا بھی ناکام ہوا ۔انتخابات کے بعد فارم سینتالیس کی بنیاد پر جو نظام قائم ہوا اس کی حیثیت پانیوں پر تیرتی کاغذ کی نائو کی ہے۔یوں تو پاکستان سیاسی بحرانوں کی ہی سرزمین ہے جہاں ہر دوچار سال بعد یا اس سے بھی عرصے میں ایک نیا بحران سر اُٹھاتا رہا ہے مگر رواں بحران کی طوالت اور پیچیدگی یوں بڑھ گئی ہے کہ بحران کا کمزور کردار مائنس ہونے سے انکاری ہے اورطاقت کی فلاسفی کو قبول کرنے کی بجائے پوری قوت سے کھڑا ہے ۔انتظامی اور عدالتی طاقت سے محروم یہ کردار عوام کی حمایت سے طاقت کشید کر رہا ہے اور عوام بھی اس وقت اس کے سوا کچھ اور سننے کو تیار نظر نہیں آتے ۔اگر بحران کا یہ پہلو نہ ہوتا تو دوسال سے ملک میں وقت کا دھارا بہہ چکا ہوتا اور معاملات ہنسی خوشی چل رہے ہوتے ۔ڈکٹیشن نہیں لوں گا اور اینٹ سے اینٹ بجادوں کے جملے کہہ کر پتلی گلی سے نکل کر ڈیل کر کے واپس آنا پاکستان کے سیاسی نصاب کا حصہ اور روایت ہے ۔اس بار اسٹیبشلمنٹ کا واسطہ ایک بدلے ہوئے کردار اور بدلی ہوئی نسل سے ہے۔جو ٹوٹنے کی بجائے پورے قد سے کھڑا ہے۔یہی بات سیاسی بحران کے اونٹ کو کسی کروٹ بیٹھنے نہیں دیتی ۔اس دوسالہ کشمکش میں ماضی کی بہت سی حقیقتیں افسانوں میں ڈھل گئی ہیں اور رومانوی تعلق اور داستانیں متروک ہو چکی ہیں ۔نغمات اور گیت اپنی معنویت کھو چکے ہیں اور ریاست کے قومی بیانئے اور نسل نو کے درمیان گہری خلیج پیدا ہو چکی ہے۔یوں عوام اور ریاست کے درمیان تاریخ اور تعلق کی پوری داستان ہی نیا موڑ مڑ چکی ہے ۔پاکستان کے حالیہ انتخابات میں جس شخص کا سب سے زیادہ تذکرہ ہوا وہ سابق مشرقی پاکستان کا سب سے اہم سیاسی کردار شیخ مجیب الرحمان تھا ۔وقت کا دھار ایسا بدلا کہ شیخ مجیب ولن سے اگر ہیرو نہیں تو مظلوم ضرور بن گیا ہے۔اب تو بنگلہ دیش کے عوام آج کے پاکستانیوں کی یہ گواہیاں شیخ مجیب الرحمان کی مظلومیت کے حق میں استعمال کرتے ہیں۔اس بحران کو حل کرنے کیلئے طاقت کا فارمولہ کارگر نہیں رہا ۔آخر کار اس مارا ماری کا حل مذاکرات میں رہ گیا ہے۔اب پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان مذاکرات کی باتیں چل پڑی ہیں ۔اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی کو حکومت کیساتھ مذاکرات کی میز پر بٹھانا چاہتی ہے مگر عمران خان حکومت کی بجائے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ براہ راست مذاکرات پر اصرار کر رہے ہیں ۔ حکومت کے دوبڑے فریق مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے نمائندے اس پر دلچسپ تبصرہ کر چکے ہیں کہ عمران خان دوبارہ فوج کو سیاست میں لانا چاہتے ہیں۔دوبارہ لانے والی بات تو تب ہوتی کہ اگر فوج سیاست سے الگ ہوئی ہوتی ۔ اس طرح تقریباََ وہی ماحول بن رہا ہے جو افغانستان میں چند سال پہلے دیکھا جارہا تھا جب امریکہ کا اصرار تھا کہ طالبان کابل حکومت کے ساتھ میز پر بیٹھ کر اپنے مسائل کا حل نکالیں اور طالبان کااصرار تھا کہ وہ امریکہ کی پراکسی کی بجائے براہ راست امریکہ سے بات کریں گے ۔ فوجی انخلاء کیلئے اندرونی دبائو بھی بڑھ رہا تھا ایسے میں آخر کار امریکہ نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان سے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کر دی ۔ طالبان پر دوغلی پالیسی اپنانے کا الزام عائد کیا جاتا رہا کہ کل تک وہ امریکہ کا غاصب اور جارح کہتے نہیں تھکتے تھے اور اب وہ اپنے ہم وطنوں کی بجائے اسی امریکہ کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں۔دوحہ مذاکرات آگے بڑھتے چلے گئے اور یہاں تک ایک مقام ایسا آیا جب دونوں فریق معاہدے پر دستخط کرنے پر آمادہ ہو گئے ۔پاکستان آج حالات کی جس بند گلی میں پہنچ گیا ہے اس میں حکومت کی حیثیت ایک پرچھائی سے زیادہ نہیں ۔ان کے پاس عمران خان کو دینے کو کچھ ہے نہ ان کے مطالبات پر کوئی فیصلہ کرنا ان کے اختیار میں ہے ۔حکومت کی دو سیاسی جماعتیں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی سیاسی دھارے میں لوٹ کر آجائیں تو وسیع تر مذاکراتی عمل کا حصہ بن سکتی ہیں ۔اس وقت معاملات عمران خان اور شہباز شریف یا آصف زرداری میںپھنسے ہوئے نہیں۔اس وقت اصل کشمکش عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ عمران خان نے مائنس ہونے سے انکار کیا ہے ۔وہ اسٹیلبشمنٹ کے آگے سینہ تانے کھڑا ہے اور ایک فرد کے کھڑا ہونے نے پاکستان کا سیاسی منظر بدل ڈالا ہے۔پچہتر برس سے حالات کی خرابی اور یکسانیت سے تنگ عوام بھی ناراض ہو کر لکیر کے دوسری جانب کھڑے ہیں۔اس ماحول میں پاکستان میں ”دوحہ طرز مذاکرات” کی باتیں چل رہی ہیں ۔اچھا ہے کہ یہ اونٹ کسی کروٹ بیٹھ جائے اگر یہ کہانی موجودہ حالات اور ماحول کے مطابق ناتمام رہ گئی اور اس دوران کوئی حادثہ ہوگیا تو پھر سمجھ جانا چاہئے یہ کہانی اگلی نسل کو منتقل ہوگئی ۔عمران خان کے مطالبے اور اصطلاحات بہت نرم ہیں خدشہ ہے کہ انہی کے سیاسی ورثے سے کوئی سخت گیر لہجہ ودہن کا کردار سامنے آئے گا ۔تو مشکل ہوگی ضروری نہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد بے نظیر بھٹو آجائے جو اپنے کارکنوں کو امریکہ مخالف نعروں سے روک دینے کی قدرت رکھتی تھیں، اس سے پہلے بنگال کے حسین شہید سہروردی کے بعد مجیب الرحمان کے سامنے آنے کا تجزبہ بھی کیا جا چکا تھا جب چپ چاپ مائنس ہوجانے والے حسین شہید سہروردی کے ایک پرجوش کارکن نے اپنے عہد میںاور اپنی باری پر مائنس ہونے سے صاف انکا ر کیا تھا اور حالات نے ایک نئی شکل اختیا رکی تھی ۔

مزید پڑھیں:  ملاکنڈ ، سابقہ قبائلی اضلاع اور ٹیکس