شفافیت کی شرط پراچھی سکیم

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کی جانب سے صوبہ میں خود روزگاری کوفروغ دینے کے سلسلے میں ”یوتھ انٹر پرینور شپ پروگرام” کے اجراء کے فیصلے کو اصولی طورپر تو خوش آئند قرار دیا جانا چاہئے ، لیکن ماضی میں مختلف وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے اس نوع کی سکیموں پر بعد میں اٹھنے والے سوالات سے ایسی سکیموں کومبینہ طور پر ”اندھابانٹے ریوڑیاں” سے تشبیہ دی جاتی رہی ہے کیونکہ ایسی تمام سکیموں کے ذریعے نقد رقوم یاپھر دیگر سہولیات مثلاً(وزیر اعظم روزگار سکیم وغیرہ وغیرہ) میں سفارش اور خاص طور پر سیاسی پسند و ناپسندکے اصولوں پرفراہمی کی اطلاعات کوئی نئی بات نہیں ، اب ایک بار پھر صوبائی خزانے کو ایک بظاہر مفید سکیم کے نام پر اگر پارٹی ورکروں اور اراکین اسمبلی کی پسند و ناپسند کے کلیے پرتقسیم کرنے سے مشروط کردیا گیا تو یہ سکیم بھی ماضی کی طرح کے نتائج کے علاوہ کسی اور انجام سے دو چار نہیں ہو گا۔ اس سے پہلے عمران حکومت کے آخری دنوں میں جس طرح ڈالروں کی شکل میں بلا منافع کروڑوں کے قرضے دیئے گئے اور جن کی تفصیل تک بعد میں سٹیٹ بینک نے فراہم کرنے سے انکار کیا اور جن کی آج تک وصولی ممکن نہیں ہو سکی ، اگر یہ منصوبہ بھی اسی قسم کا ہے جس کا مقصد صرف اپنوں کونوازنا ٹھہر جاتا ہے تو صوبہ پہلے ہی گزشتہ دس سال کے دوران کھربوں کا مقروض ہے ، اس پر مزید بوجھ نہ ہی ڈالا جائے تو بہتر ہے ۔

مزید پڑھیں:  جو اپنے آپ سے شرمندہ ہو خطا کر کے