اسے نہ کاٹئے تعمیر قصر کی خاطر

سوشل میڈیا پر گزشتہ تین چار روز سے جو خبریں گردش کر رہی تھیں ہم سمجھے کہ یہ ہر سال کی طرح سرکاری سطح پر ایک بار پھر فلر( Filler) چھوڑے جارہے ہیں اور اصل میں ان کا مقصد”بازار کا بھائو”معلوم کرنا ہے تاکہ آنے والے بجٹ میں سرکاری ملازمین اور ”بے چارے” پنشنرز کی اجرتوں میں اضافہ کرنے یا نہ کرنے ، یا پھر کس حد تک اضافہ کرنے کے حوالے سے کوئی فیصلہ کیا جائے ، تاہم گزشتہ برسوں اور اب کی بار ان خبروں میں ایک بنیادی فرق ہے ، اگرچہ اس دوران میں سوشل میڈیا پر پنشنرز کی ڈیمانڈ یہ آرہی ہے کہ ان کی پنشن میں دوسو فیصد اضافہ کیا جائے تاہم اس محروم طبقے کا کیا ہے وہ تو دو جمع دو چار روٹیاں ہی ورد زباں رکھ سکتے ہیں کیونکہ ”بھوکے” کو خواب میں بھی روٹیاں نظر آتی ہیں ۔ یاد رہے کہ گزشتہ کئی برس سے ”بجٹ کے موسم” میں سرکاری ملازمین اور پنشنرز کے لئے اضافے کی خبریں 35 فیصد سے شروع ہوتی ہیں اور پھر اس میں بتدریج تبدیلی لاتے لاتے کبھی تان 20 تا 25فیصد پر توڑی جاتی ہے کبھی پندرہ اور بالآخر جب بجٹ میں ایک دو روز رہ جاتے ہیں تو معاملہ دس فیصد تک آجاتا ہے جبکہ ملازمین(حاضر و ریٹائرڈ) بہ امر مجبوری اسی دس فیصد پر ٹرخ جاتے ہیں اگرچہ ”میں نہ مانوں” کا سلوگن چلا کر اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر اس اضافے کو مسترد کرنے کے اعلانات بھی کئے جاتے ہیں، مگر جس طرح حزب اختلاف کے رہنماء ہر بار بجلی ، گیس ، پٹرول وغیرہ کی قیمتوں میں اضافے کو مسترد کرنے کے اعلانات کے بعد کوئی عملی قدم نہیں اٹھاتے یعنی احتجاج کو کسی عملی شکل میں ڈھالنے کی سعی نہیں کرتے اور عوام کو یہ باور کراتے ہیں کہ ہم نے تمہارے حق میں آواز بلند کرلی ہے اب حکومت ٹس سے مس نہیں ہوتی تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟ بالکل اسی طرح سرکاری ملازمین موجود دوسابق بھی ”نہ منو ، نہ منو ، طوطا رام نہ منو”( ریڈیو پاکستان کے ایک بہت پرانے پشتو پروگرام د دوستانو خبرے اترے کا جنگل( Jangle) کا ورد کرتے ہوئے چند روز تک شور مچا کر خاموش ہو جاتے ہیں تاہم اب کی بار معاملہ کچھ اور ہے اور جیسا کہ اوپر کی سطور میں عرض کیا کہ اب کی بار جہاں ملازمین اور پنشنرز کی جانب سے دو فیصد اضافے کی ڈیمانڈ کی جارہی ہے ، کچھ مایوس کن خبریں تواتر کے ساتھ آتو رہی تھیں مگر سوشل میڈیا کی کارستانی سمجھتے ہوئے ہم انہیں نظر انداز کرتے رہے البتہ ان میں سے ایک خبر اگرچہ حوصلہ افزاء قرار دی جا سکتی ہے جبکہ دوسری خبر خاصی حوصلہ شکن تھی ، جہاں تک حوصلہ افزاء خبر کا تعلق ہے اس پر آگے چل کر بات ہو گی جبکہ جس حوصلہ شکن خبر کوبھی ہم قابل توجہ نہیں سمجھ رہے تھے یہ خبر گزشتہ برس بھی آئی تھی مگر پھر یہ اپنی موت آپ مرگئی تھی ،لیکن اب کی بار یہ خبر سوشل میڈیا کی فلر سے آگے بڑھ کر جمعہ کو سامنے آنے والی ایک اخباری خبر میں ڈھل گئی جس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں کچھ نہ کچھ حقیقت بہرحال موجود ہے اور خبر یہ ہے کہ آئی ایم ایف نے پنشن پر بھی ٹیکس لگانے کا ”نادر شاہی حکم”جاری کر دیا ہے ۔ پانچ چھ سال پہلے ڈالر اور روپے کے درمیان ”قدر اور بے قدری” کی جو جنگ جارہی ہے اور ڈالر کی اونچی اڑان سے روپے کی”قدر و منزلت” شکست وریخت سے دو چار ہے تو پانچ سال پہلے سو روپے میں جتنی اشیائے صرف آجاتی تھیں اب اتنی ہی چیزیں ڈھائی سے تین بلکہ ساڑھے تین چار سو روپے میں آجاتی ہیں تو جتنی رقم(قوت کے لحاظ سے) پنشنرز کو مل جاتی تھی آج ہندسے کے لحاظ سے اس سے زیادہ مل جاتے ہیں لیکن قوت خرید نیچے جاتے جاتے اتنی بے توقیر ہوچکی ہے کہ پنشن بظاہر بڑھنے کے باوجود کم پڑ رہی ہے یوں گویا صورتحال یہ بن چکی ہے کہ ”سینڈ واچ” کی مانند یعنی وہ گھڑی جس میں ریت نیچے گرتے ہوئے اوپر کی سطح کو آہستہ آہستہ خالی کرتی جاتی ہے اور بارہ یا چوبیس گھنٹے کے بعد اسے مکمل خالی ہونے کے بعد الٹا کر دوبارہ یہی عمل شروع کیا جاتا ہے یا پھر اس صورتحال کو آپ ”مٹھی سے ریت گرنے”سے بھی تشبیہ دے سکتے ہیں ، اب اس پر مزید”ڈاکہ” پڑنے کے ا مکانات یا خدشات پیدا ہو رہے ہیں کیونکہ آج جبکہ پنشن ابتداء ہی سے انکم ٹیکس فری کے زمرے میں آتی ہے اس کو بھی ٹیکس نیٹ میں لانے کے احکامات کو صرف اس لئے قبول کیا جارہا ہے کہ آئی ایم ایف ہمارے ”کشکول” میں قرض کے کچھ سکے ڈالتا ہے جس پر بھاری سود وصول کرنے کی ضمانت مختلف ٹیکسوں کی صورت یقینی بنانا چاہتا ہے آئی ایم ایف کی آنکھوں پر کیا پٹی بندھی ہوئی ہے اور اسے نظر نہیں آتا کہ ”مراعات یافتہ” طبقات کو ”سہولتیں” فراہم کرنے پرکتنے اخراجات اٹھتے ہیں جن کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ جو حقائق روز روشن کی طرح عیاں ہیں ان پر کیا بات کی جائے یعنی فارسی مقولے کے مطابق ”عیاں راچہ بیاں؟” مرحوم عامر یاد آگئے ، کیا خوب کہا تھا انہوں نے کہ
اسے نہ کاٹئے تعمیر قصر کی خاطر
کہ اس درخت میں اک فاختہ کا جالا ہے
اس حوصلہ شکن خبر کے بعد اب اس حوصلہ افزاء خبر کی جانب چلتے ہیں جس کا ذکر کالم کے ابتدائی حصے میں کیا جا چکا ہے اور وہ ہے سوشل میڈیا پر ہی چلنے والی ایک اور پوسٹ کی (جس کو ریگولر میڈیا پر تادم تحریر نہیں دیکھا گیا ممکن ہے آئندہ اس کا تذکرہ بھی آجائے) اور وہ خبر یہ ہے کہ صدر آصف علی زرداری نے حکومت کو واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ سرکاری ملازمین اور پنشنرز کے لئے آنے والے بجٹ میں تنخواہوں اور پنشن میں معقول ا ضافہ کیا جائے ، بصورت دیگر ۔۔ اور اس بصورت دیگر میں کچھ ”چتائونیا” بھی موجود ہیں تاہم ایک بات بہت واضح اور ریکارڈ پر ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے ہمیشہ محنت کشوں کا ساتھ دیا ہے ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ کرنے اور کروانے میں اہم اور مثبت کردارادا کیا ہے ، اگرچہ اس وقت پیپلز پارٹی عملی طور پر حکومت میں شامل نہیں اور موجودہ حکومت کو صرف اس کا بھر پور تعاون حاصل ہے اور بعض خبریں ایسی بھی سامنے آرہی ہیں کہ ممکن ہے پارٹی عنقریب اقتدار کا حصہ بن جائے کیونکہ بلاول بھٹو زرداری کے بارے میں خبریں گرم ہیں کہ وہ آئندہ چند ہفتوں یا (شاید) بجٹ کے بعد بطور وزیر خارجہ حلف لے سکتے ہیں ، اس موقع پر پارٹی رہنمائوں اور خاص طور پر صدرمملکت آصف زرداری سے یہ گزارش ضرور کی جا سکتی ہے کہ وہ پنشنرز پر ”مسلسل پڑنے والے ڈاکے” کو مد نظر رکھتے ہوئے جس کی وضاحت اوپر کی جا چکی ہے آئی ایم ایف کے دبائو کے تحت اس مظلوم طبقے پر انکم ٹیکس کا بوجھ ڈالنے سے حکومت کو روکے ، کیونکہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور پنشن کی کم ہوتی ہوئی قدر کی وجہ سے یہ طبقہ پہلے ہی شدید دبائو میں ہے ، اوپر سے انہیں انکم ٹیکس ادا کرنے پر مجبور کرنے سے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گا ۔ بقول حبیب جالب
وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پائوں ننگے ہیں بے نظیروں کے

مزید پڑھیں:  اس آسیب سے قوم کو نجات دلائیں