شفافیت کی طرف ناکافی قدم

خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے تین لاکھ میٹرک ٹن گندم کی خریداری میں شفافیت لانے اور مبینہ کرپشن کی روک تھام کے لئے نیب اور انٹی کرپشن کی مدد حاصل کرن اور محکمہ مواصلات و تعمیرات کو بدعنوانی سے پاک بنانے کے لئے شکایات سیل کا قیام روایتی اقدامات سے ہٹ کر حقیقی معنوں میں عمدرآمد کی شرط پر احسن اقدامات متصور ہوں گے ۔صوبائی حکومت نے گندم کی خریداری کے پورے عمل کو شفاف رکھنے کیلئے نیب اور انٹی کرپشن کی مدد لینے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں اداروں کو صوبائی حکومت درخواست کرے گی کہ ان کے نمائندے گندم خریداری کے عمل کی نگرانی کریں تاکہ کسی بھی قسم کی مبینہ کرپشن کی روک تھام ممکن ہوسکے اور صوبائی حکومت شفاف عمل کے تحت گندم کی خریداری کر سکے۔ واضح رہے کہ صوبائی حکومت نے 6لاکھ میٹرک ٹن گندم کی خریداری کی منظوری دی ہے جس میں تین لاکھ میٹرک ٹن گندم کی خریداری کیلئے 29ارب روپے بھی جاری کر دئیے گئے ہیں۔محکمہ مواصلات و تعمیرات اور محکمہ خوراک ہر دو محکمے بدترین قسم کی بدعنوانی کے لئے بدنام ہیں ماضی میں ان محکموں میں کرپشن کے بڑے بڑے سکینڈل کوئی راز کی بات نہیں محکمہ مواصلات و تعمیرات کی کارکردگی تو ہر ہنگامی حالات خاص طور پر زلزلہ کے ایام میں طشت ازبام ہوتی رہی ہے جس کی سب سے بڑی وجہ ا حتساب کے عمل کا نہ ہونا ہے ۔ ان محکموں میں بروقت اقدامات کی کمی ہی نہیں بلکہ صرف نظر چشم پوشی ملی بھگت اور منظم طریقے سے بدعنوانی کوئی راز کی بات نہیں بنا بریں بجائے کہ بعد میں قانون و احتساب کا ڈرامہ رچانے کی بجائے برموقع اقدامات کی ضرورت و اہمیت مسلمہ ہے صوبائی حکومت کے اقدام کی ضرورت و اہمیت مسلمہ ہے صوبائی حکومت کے اقدام کی تحسین کرنے کے ساتھ ہم اس امر کی جانب بھی توجہ دلانا ضروری سمجھتے ہیں کہ نیب اور انسداد بدعنوانی کے اہلکار بھی دودھ کے دھلے نہیں ہوتے بنا بریں حکومت صرف ضابطے کی کارروائی پوری کرنے کو کافی نہ سمجھے بلکہ اس امر پر بطور خاص توجہ دی جائے کہ یہ عمل کہیں” محفوظ ملی بھگت” کے طور پر استعمال نہ ہو حکومت دیگر سرکاری محکموں سے بھی خفیہ معلومات و نگرانی کو ذمہ داری سونپے اور سارے عمل کی تہہ در تہہ نگرانی کی جائے تبھی کم بدعنوانی ہی کی توقع ہے ۔محکمہ مواصلات و تعمیرات کے کام چونکہ زیادہ قابل دید ہوتے ہیں ایسے میں ان کی نگرانی مشکل نہیں شکایات بھی مختلف ذرائع سے سامنے آتی ہیں ضروری نہیں کہ تمام شکایات مبنی برحقیقت ہوں لیکن یہ اصول اپنایا جائے کہ ہر شکایت کا ایک اجمالی جائزہ ضرور لیا جائے گا اور اسے یکسر پراپیگنڈہ قرار دینے کی بجائے اہمیت دی جائے گی تو یہ اقدام کافی معاون ثابت ہو سکے گا۔

مزید پڑھیں:  مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی