بی اے ‘ بی ایس سی کا کالجوں میں نعم البدل

پاکستان بھر کے کالجوں میں بی اے بی ایس سی پروگرام ختم کردئیے گئے ہیں جو کہ دو سالہ ڈگری پروگرام تھے جس کی بنیاد پر طلبا یا تو ایم اے ایم ایس سی میں داخلہ لیتے تھے یا پھر اسی بنیاد پر وہ سی ایس ایس یا دیگر امتحانات میں شریک ہوسکتے تھے ۔ نئے تعلیمی ڈھانچے میں اب بیچلرز کی ڈگری سولہ برس کے تعلیم کے بعد دی جاتی ہے اور ماسٹر کی ڈگری اٹھارہ برس کی تعلیم کے بعد دی جاتی ہے جو پوری دنیا میں ایک سٹینڈرڈ ہے ۔ہمارے ملک میں وہ تجربات ہوتے ہیں کہ جن کو دیکھ کر ترقی یافتہ دنیا بھی حیران رہ جاتی ہے ۔ یہ تجربے اس لیے ہوتے ہیں کہ فیصلہ سازوں کو تعلیم کے ڈھانچے اور اس کی ضروریات کا کچھ علم نہیں ہوتا اور ان کے پاس تعلیم کو دینے کے لیے صرف ایک میٹنگ ہوتی ہے جس کا دورانیہ چند منٹ ہوتا ہے اس میں وہ کسی کو سنتے بھی نہیں اور فیصلہ صادر کرکے رخصت ہوجاتے ہیں اور پھر اس فیصلے کو رائج کرنے کے لیے بابو مشینری ایک نوٹیفیکشن کردیتی ہے جس پر عمل کرنا لازم ہوجاتا ہے اور دنیا کو ہم پر ہنسنے کا موقع ہاتھ آجاتا ہے ۔ ایسا ہی ایک فیصلہ کیا گیا کہ کالجوں میں بی ایس چار سالہ پروگرام شروع کیا جائے اب کسی نے یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی کہ کیا کالجوں میں ایسا کرنا ممکن ہے بھی یا نہیں اس سلسلے میں ہمارے صوبہ کے ارباب اختیار نے وہ تیزی دکھائی کہ حکم کے اگلے دن ہی اس پر عمل درآمد شروع کروا دیا یہ دیکھے بغیر کہ کیا اس کے لیے وسائل موجود ہیں یا عملی طور پر ممکن ہوسکتا ہے یا نہیں نمبر بنانے کے چکر میں ایک ڈیپوٹیشن پر آئے ہوئے صاحب نے اس کو اپنی کارکردگی بنا کر اس دور کی حکومت کو ماموں بنایا اور تعلیم کا جو نقصان ہوا وہ الگ ۔ اب سوال یہ ہے کہ بی اے بی ایس سی کی جگہ کالجوں میں کیا کرنا چائیے تو اس کا جواب سیدھا سا ہے کہ کالجوں میں دنیا کی دیگر ممالک کی طرح ایسویسی ایٹ ڈگری پروگرام شروع کرنا چاہئے ،ایسویسی ایٹ ڈگری کیا ہے تو اس کی وضاحت یہ ہے کہ ایک دو سالہ تعلیمی پروگرام ہے جو انڈرگریجویٹ سطح پر کالجوں میں پڑھایا جاتا ہے اس ایسویسی ایٹ ڈگری کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ طلبا کو بنیادی مہارتیں اور علم سکھایا جائے جس کی بنیاد پر وہ عملی زندگی کے کسی مخصوص شعبہ میں کام کا آغاز کرسکیں یا اس شعبہ میں مزید تعلیم حاصل کرنے کے اہل ہوسکیں ۔ایسویسی ایٹ ڈگری کا کانسپٹ امریکی نظام تعلیم سے لیا گیا ہے جہاں کمیونٹی ، ٹیکنیکل یا جونیر کالجوں میں یہ ڈگری دی جاتی ہے ۔اب تقریباً دنیا کے تمام ممالک میں یہ سلسلہ رائج ہوگیا ہے ، انگلستان میں اسے فاونڈیشن ڈگری کہا جاتا ہے ۔ اس ایسویسی ایٹ ڈگری کو دو طرح کے طالب علم اپناتے ہیں ۔وہ طلبا جو اپنے دفتری یا کام کی سطح پر قابلیت بڑھانا چاہتے ہیں جس سے ان کو کام میں عملی فائدہ ہو یا اس کی بنیاد پر انہیں عملی کام کرنے کا موقع میسر آسکے اور وہ روزگار پر لگ جائیں ۔دوسرے وہ طلبا ہیں جو ایسویسی ایٹ ڈگری کی بنیاد پر آگے اسی فیلڈ میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔دنیا میں چار طرح کے ایسویسی ایٹ ڈگریاں دی جاتی ہیں ، AA یعنی ایسویسی ایٹ اف آرٹس،AS یعنی ایسویسی ایٹ اف سائنس، AAA یعنی ایسویسی ایٹ اف اپلائیڈآرٹس ،AAS یعنی ایسویسی ایٹ اف اپلائیڈ سائنس،AAاورAS کا انتخاب وہ طلبا کرتے ہیں جنہوں نے آگے بی ایس میں داخلہ لینا ہو اور مزید پڑھنا ہو اس سے ان کو آگے پڑھنے کا سرٹیفکیٹ مل جاتا ہے یعنی راستہ مل جاتا ہے جبکہ AAA اور AASکی تعلیم عملی تعلیم ہوتی ہے یہ تعلیم حاصل کرکے وہ سیدھے عملی میدان میں کام کرنے چلے جاتے ہیں یا کہیں نوکری کرتے ہیں یا خود سے کام شروع کردیتے ہیں ۔ اس کے علاوہ بھی ایسویسی ایٹ ڈگریاں ہیں جنہیں ABAایسویسی ایٹ اف بزنس ایڈمنسٹریشن ، AGSایسویسی ایٹ اف جنرل سٹڈیز،AAB ایسویسی ایٹ اف اپلائیڈ بزنس کہا جاتا ہے ان کو پڑھنے کے بعد طلبا عملی کام یا مزید تعلیم دونوں حاصل کرسکتے ہیں ،ایسویسی ایٹ ڈگری پروگرام میں آپ کو لازماً ٦٠ کریڈیٹ آورز پڑھنے ہوتے ہیں یعنی یہ چار سمسٹر پر محیط ہوتا ہے جس کا دورانیہ دو برس کا ہوتا ہے ۔ اس میں ٢٠ کورسسز پڑھنا پڑتے ہیں ۔ ہمارے ہاں کچھ برخود غلط لوگوں نے یہ کام کیا ہے خصوصاً سندھ اور پنجاب میں کہ انہوں نے بی اے بی ایس سی کا نام بدل کر ایسویسی ایٹ ڈگری رکھ دیا ہے ،بی اے بی ایس سی پروگرام سالانہ امتحان کے ذریعہ دو برسوں میں اٹھ مضامین پڑھ کر مکمل کیا جاتا ہے جبکہ ایسویسی ایٹ ڈگری کے لیے آپ کو لازماً ٢٠ مضامین پڑھنے ہوتے ہیں ۔ ایسویسی ڈگری پروگرام میں بنیادی تعلیم دی جاتی ہے اس لیے یہ کام کالج کی سطح پر ممکن ہوتا ہے جبکہ تخصیصی اور اعلیٰ سطح کی تعلیم صرف یونیورسٹی کی سطح پر دی جاسکتی ہے اس لیے کہ اعلیٰ سطح پر تعلیم دینے کے لیے کم از کم اٹھارہ برس کی ڈگری کا حامل استاد چاہئے ہوتا ہے اور وسیع لائبریری ،لیبارٹریوں اور دیگر وسائل کی ضرورت ہوتی ہے جو کالجوں میں دستیاب نہیں ہوتیں۔ کالجوں میں بی ایس ڈگری پروگرام کوختم کرکے ایسویسی ایٹ ڈگری پروگرام شروع کرنا ہوں گے لیکن یہ بہت ضروری ہے کہ پہلے اس پر مکمل ہوم ورک ہو ،کالج کے اساتذہ کی اس سلسلے میں تربیت کی جائے اور ان کے لیے کورس ڈیزائن کیے جائیں اور زیادہ تر کالجوں میں عملی نوعیت کے ایسویسی ایٹ ڈگری کے پروگرام چلائے جائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ ہنر مند پیدا ہوں اور انہیں ملازمت اور کام کے مواقع میسر آسکیں بہت ہی کم تعداد میں AAاورAS کے پروگرام ہوں اس لیے کہ پوری دنیا میں ایسا کیا جاتا ہے امریکہ میں ایسویسی ایٹ ڈگری حاصل کرنے والے ٩٠ فیصد طلبا عملی کام شروع کردیتے ہیں جبکہ صرف ١٠ فیصد طلبا مزید تعلیم کے لیے یونیورسٹیوں کا رخ کرتے ہیں ، جرمنی میں جب بارہ برس کی تعلیم مکمل کی جاتی ہے تو طلبا کا میلان معلوم کیا جاتا ہے اور زیادہ تعداد میں بچوںکو Fachhochschule (فاخہ شولے) بھیجا جاتا ہے جہاں وہ عملی تعلیم یعنی جس کو ٹیکنیکل تعلیم کہا جاتا ہے وہ حاصل کرتے ہیں ۔ ہمارے صوبہ میں بھی اس طرح کی ایک یونیورسٹی بنائی گئی ہے Pak Austria Fachhochschule کے نام سے ہری پور میں اور حکومت نے اس کو اربوں روپے گرنٹس بھی دئیے ہیں لیکن بدقسمتی ملاحظہ کیجئے کہ یہ بھی ادھا تیتر ادھا بٹیر نما ادارہ بن گئی ہے جہاں انگریزی لڑیچر اور آرٹس بھی پڑھائے جاتے ہیں جبکہ حقیقی معنوں میں جو اس کا مقصد تھا اس کی جانب کوئی کام ہوتا ہوا نظر نہیں آتا وہی روایتی عملہ وہی روایتی کلاس روم ٹیچنگ اور نوٹس کلچر وہاں بھی رائج ہو رہا ہے پھر قوم کے درجنوں ارب روپے ضائع کرنے کی تک بنتی تھی ۔ ہمارے ہاں توزرعی یونیورسٹی میں بزنس مینجمنٹ اور کمپیوٹر سائنس اور دیگر مضامین پڑھائے جاتے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے کہ جس مقصد کے لیے یونیورسٹی بنائی گئی ہے اسے چھوڑ کر غیر متعلقہ مضامین آپ کیسے پڑھا رہے ہیں اور ہائر ایجوکیشن کمیشن بھی ان کی ان غیر متعلقہ ڈگریوں کی تصدیق کرتی ہے ۔ یہاں پرائیویٹ یونیورسٹیوں کی سب کیمپس جو سکولوں میں قائم ہیں وہاں ویک اینڈ میں پی ایچ ڈی کروائی جاتی ہے اور حکومت اور ارباب اختیار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ۔
ایسویسی ایٹ ڈگری پروگرام کو حقیقی معنوں میں کالجوں میں رائج کرکے اس سے تعلیمی اور عملی سطح پر بہت سارے فائدے اٹھائے جاسکتے ہیں اس سے ملک کو ہنر مندوں کی ایک بہت بڑی تعداد میسر آئے گی جو ملک کے اندر اور بیرون ملک جاکر خدمات کے بدلے اس ملک کو کثیر سرمایہ دے سکے گی اور ہم آئی ایم ایف اور دیگر ممالک کے سامنے روز روز ہاتھ پھیلانے سے بچ جائیں گے ۔اور اس وقت جو لاکھوں کی تعداد میں بے کار ڈگریاں ان اداروں سے لے کر ہمارے نوجوان فرسٹریشن کا شکار ہورہے ہیں اس سے کسی حد تک نجات مل جائے گی ۔

مزید پڑھیں:  کالی حوریں