کشمیر کا مقدمہ بھارتی سپریم کورٹ میں

بھارت کی سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے کشمیر میں آرٹیکل 370کے خاتمے کو چیلنج کرنے والی رٹ پٹیشنز پر سماعت کا آغاز کر دیا ہے، پانچ اگست کے فیصلے کے خلاف تئیس درخواستیں سپریم کورٹ میں دائر تھیں جن پر سماعت کا آغاز سپریم کورٹ آف انڈیا کے چیف ڈی وائی چندرا چد کی سربراہی میں ہو گیا ہے۔ درخواست گزاروں میں مقبوضہ کشمیر کے سابق وزرائے اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی بھی شامل ہیں۔ محبوبہ مفتی نے یہ موقف اختیار کیا ہے کشمیریوں کی رائے حاصل کئے بغیر ہونے والا فیصلہ غیر آئینی ہے کیونکہ آئین ہند میں واضح طور پر کشمیریوں کی مرضی اور مشورے کی بات کی گئی ہے۔ مودی حکومت نے یہ فیصلہ کرنے سے پہلے کشمیر اسمبلی کو ختم کر دیا تھا اور اس فیصلے میں کسی طور کشمیریوں کی رضامندی شامل نہیں۔ کشمیر اقوام متحدہ میں ایک متنازعہ مسئلے کے طور پر موجود ہے، کاغذوں میں اس کی متنازعہ حیثیت اقوام متحدہ کی قراردادوں اور تنازعے کے حل کے لئے بننے والے کمشنز کی صورت موجود ہے اور کونسا عالمی راہنما ہے جس کا بیان ریکارڈ پر موجود نہیں کہ پاکستان اور بھارت کو تنازعہ کشمیر کو پرامن طور پر مذاکرات سے حل کرنا چاہئے اور زمین پر اس تنازعے کی بین الاقوامی حیثیت اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین اور سیز فائر لائن کو کنٹرول لائن کہنا اور اس کے لئے بارڈر کی اصطلاح استعمال نہ کرنا ہے۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ کشمیر ایک سہ فریقی مسئلہ ہے اور اس کا کوئی معاملہ بھی کسی ایک فریق کا اندرونی معاملہ نہیں ۔اس حد تک بات ٹھیک ہے کہ بھارتی آئین میں کشمیر کو خصوصی شناخت دینے والی دفعہ 370 بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو اور کشمیری راہنما شیخ محمد عبداللہ کے طویل دوستانہ تعلقات کا مظہر تھی، اسی امید پر نہرو نے شیخ عبداللہ کو اپنے ساتھ جوڑے رکھا تھا، بھارت کے آئین کی تیاری کے موقع پر سردار پٹیل کا سخت گیر کانگریسی گروپ ایسی کسی شق اور دفعہ کا کھلا مخالف تھا مگر پنڈت نہرو نے امبیڈ کر کی منت سماجت کرکے اور شیخ عبداللہ کے ساتھ اپنے وعدوں اور تعلقات کا واسطہ دے کر اس دفعہ کو آئین کا حصہ بنوایا جس کے تحت دہلی کے پاس صرف خارجہ امور، مواصلات اور دفاع کے تین شعبے تھے جبکہ باقی تمام اختیارات مقبوضہ جموں وکشمیر کی حکومت کو حاصل تھے، اس دفعہ کے تحت مہاراجہ ہری سنگھ کے سٹیٹ سبجیکٹ قانون کو من و عن اپنا کر آئین کا حصہ بنایا گیا۔ اس دفعہ کے تحت مقبوضہ جموں کشمیر کے عوام کو صدر اور وزیراعظم کے عہدے، اپنا آئین اور پرچم کا حق دیا گیا۔ یوں جموں وکشمیر کی ریاست بھارت میں اپنی نوعیت کی منفرد ریاست تھی جو مہاراجہ کے مشروط الحاق کے کچے دھاگے کے ساتھ بھارت کے آئین کا حصہ تھی۔ بھارت کی طرف سے کشمیر کو دی گئی یہ آزادی ٔ پرواز محض دوسال ہی جاری رہی اور بھارتی حکومت نے اس دفعہ کو غیر موثر بنانے کی کوششوں کا آغاز کرکے کشمیریوں کے بال وپر کترنا شروع کر دیئے۔ 1953ء میں شیخ عبداللہ کو برطرف کرکے گرفتار کر لیا گیا اور یوں پنڈت نہرو اور شیخ عبداللہ کے درمیان یارانے کی اس یادگار کی فلک بوس عمارت کی پہلی اینٹ کھسک کر رہ گئی، شیخ عبداللہ کو دی گئی آزادیاں بھارت نے ان کے جانشین بخشی غلام محمد کے ذریعے واپس لینے کا عمل شروع کیا۔ بھارت نے صدر اور وزیراعظم کے عہدے ختم کرکے گورنر اور وزیراعلیٰ میں بدل دیئے۔ بھارتی آڈیٹر جنرل اور الیکشن کمیشن کو کشمیر تک توسیع دی گئی، الحاق کو حتمی قرار دیا گیا، آل انڈیا سروسز یعنی انڈین اینڈ منسٹریٹو سروسز اور انڈین پولیس سروسز کا دائرہ بھی کشمیر تک بڑھایاگیا۔ 1964ء میں بھارتی آئین کی دفعہ 356 اور357کے تحت ریاستی حکومت کی ناکامی کی صورت میں صدر راج کا اختیار دے دیا گیا، دفعہ 370دہلی کے حاکم اور سری نگر کے محکوم حکمرانوں کے درمیان ایک معاہدہ تھا مگر یہ بھارت کے ڈھانچے میں کشمیر کی الگ شناخت کی علامت تھی۔ بھارت نے آزادی کی اس عمارت کو پہلے خود ہی ویران کیا، پھر اس کے درد و یوار اکھاڑے اور پانچ اگست کو اس کا ملبہ بھی چرانے کی کوشش کی تاکہ ثبوت اور آثار باقی نہ رہیں۔ پاکستان کو ماضی کی روایت کے تحت ہر اس کشمیری کے ساتھ کھڑا ہونا ہے جو لمحۂ موجود میں دہلی کے مقابل کھڑا ہوتا ہے۔ ایک فریق کے طور پر پاکستان کی یہ تاریخی ذمہ داری ہے۔ یوں تو5 اگست 2019ء سے بہت پہلے ہی کشمیر کی خصوصی شناخت کو مٹا ڈالنے کی کوششیں آہستہ روی سے جاری تھیں مگر 2019ء سے سال بھر پہلے یہ مقدمہ بھارتی عدالتوں میں پراسرار انداز سے پہنچا دیا گیا تھا۔ سال بھر پہلے ہی”ہم شہری ” نامی ایک فرضی تنظیم نے بھارتی سپریم کورٹ میں آرٹیکل 370کو چیلنج کردیا تھا۔ بھارتی سپریم کورٹ نے آئین کی دفعہ35A پر فیصلہ سنانے کی تاریخوں کو آگے بڑھانا شروع کر دیا تھا، سپریم کورٹ کے ججز نے اس کی وجہ یہ بتائی تھی کہ بنچ تین رکنی تھا مگر ایک رکن کی غیر حاضری کی وجہ سے فیصلہ نہیں سنایا جا سکتا۔ سپریم کورٹ نے مقررہ دن فیصلہ سنانے سے گریز کیا جس دن فیصلہ سنانا تھا اس وقت مقبوضہ کشمیر میں زودار ہڑتال چل رہی تھی۔ مشترکہ مزاحمتی فورم کی اپیل پر ہونے والی دو روزہ ہڑتال نے کاروبار حیات معطل کر کے رکھ دیا تھا اور عوام چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں احتجاج کر رہے تھے، ”وی دی سٹیزن ” (ہم شہری) نامی ایک غیر سرکاری تنظیم نے بھارتی سپریم کورٹ میں یہ رٹ دائر کر رکھی تھی، بھارتی آئین کی دفعہ35A مقبوضہ کشمیر کو خصوصی شناخت دیتی ہے جس کے تحت کوئی بھی غیر کشمیری باشندہ ریاست جموں وکشمیر میں نہ تو جائیداد خرید سکتا ہے اور نہ ووٹ کا استعمال کر سکتا ہے۔ اس دفعہ کے تحت بھارت کا شہری کشمیر میں ملازمت کا حق بھی نہیں رکھتا۔ یہ دفعہ کشمیر کی الگ شناخت کے حوالے سے بھارت کی قیادت بالخصوص پنڈت جواہر لعل نہرو کے وعدوں کی آخری آخری نشانیوں میں شامل ہے۔ غیر کشمیری باشندوں کے کشمیر میں زمینیں خریدنے اور ملازمت حاصل کرنے کا قانون جسے عرف عام میں سٹیٹ سبجیکٹ یعنی پشتنی باشندہ ریاست جموں وکشمیر کا تصدیق نامہ کہا جاتا ہے مہاراجہ ہری سنگھ نے نافذ کیا تھا، آرٹیکل370 کے خاتمے سے پہلے ہی یہ خدشات ظاہر کئے جا رہے تھے کہ اس قانون کے خاتمے کے ساتھ ہی بڑے پیمانے پر بھارتی سرمایہ دار وادی کی طرف نقل مکانی کریں گے، اونے پونے داموں زمینیں خریدی جائیں گی اور مغربی پاکستان سے جانے والے لاکھوں ہندو پناہ گزین پہلے ہی جموں کے علاقوں میں شہریت کے انتظار میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ پنڈتوں کے لئے الگ بستیاں بسانے کے منصوبے بھی کاغذوں میں تیار ہیں، امرناتھ یاتریوں کے لئے وسیع وعریض رہائشی منصوبے اور انہیں اس کے لئے الگ سے انتظامیہ کا قیام اور ان کے لئے مکانیت کی سہولت کی فراہمی وادی کے مسلمان اکثریتی کردار کے اوپر لٹکتی ہوئی تلوار رہی ہے اور یوں کشمیر میں ایک” اسرائیل ”کے خدوخال اُبھرنا شروع ہوجائیں گے، اب چار سال سے جو کچھ ہو رہا ہے اس کی عملی تصویر ہے۔ حال ہی میں محبوبہ مفتی کا یہ چونکا دینے والا بیان سامنے آیا ہے کہ بھارتی حکومت دس لاکھ غیر کشمیریوں کو کشمیر میں بے زمین کو زمین دینے کے نام پر بسا کر آبادی کا تناسب تبدیل کرنا چاہتی ہے۔ یہ ان خدشات اور خطرات کو تقویت دے رہا ہے کہ بھارت کشمیر میں نوآبادیاتی پالیسی اپنائے ہوئے ہے، کشمیری مسلمان ہمیشہ سے اس خطرے کی بو محسوس کرتے رہے ہیں مگر نریندر مودی کے دور حکومت میں یہ خطرہ بہت عیاں ہو کر سامنے آیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مودی کے آتے ہی کشمیر میں مزاحمت کے ایک نئے اور نہ ختم ہونے والے دور کا آغاز ہو گیا ہے۔ وادی کے مسلمان فلسطین ماڈل کے خلاف ردعمل میں اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں، طاقت اور حیلہ جوئی سے کشمیریوں کو رام نہ کیا جا سکا اور اب آخری چارہ کار آبادی کے تناسب کی تبدیلی ہے۔ اس کے لئے پہلے ہی بھارت کے آئینی اداروں کا سہارا لیا جانے لگا تھا اور اب ان آئینی اداروں کے پاس کشمیریوں کا مقدمہ ہے اور چار سال بعد ہی سہی ان اداروں نے کشمیریوں کی درخواستوں کی طرف متوجہ ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔

مزید پڑھیں:  عدلیہ ، عوام اور دستورِ مظلوم