بھارت کی آبی جارحیت اور حفاظتی اقدام

بھارت میں حالیہ بارشوں اور سیلابی صورتحال کے حوالے سے اٹھائے جانے والے اقدامات کے تحت چند روز پہلے راوی میں پانی کے ایک بڑے ریلے کے داخلے کی خبروں نے تشویش کی جو لہردوڑاتی تھی’ اگرچہ اب اس کی صورتحال قدرے تبدیل ہو چکی ہے اور دریائے راوی میں سیلاب کا خطرہ (فی الحال) ٹل گیا ہے اور جب تک اس حوالے سے مزید پانی بھارت اپنے آبی ذخائر سے چھوڑ کرمسئلہ کھڑا نہیں کرے گا’ راوی میں (جوایک خشک نالے کی شکل اختیار کر چکا ہے) پانی معمول کے مطابق ہی بہتا رہے گا تاہم تازہ ترین اطلاعات کے مطابق دریائے جمنا میں پانی کی سطح بھارت میں شدید بارشوں کی وجہ سے بلند ہونے کے کارن وہاں سیلاب نے تباہی مچادی ہے اور دریائوں میں پانی کی سطح گزشتہ45 سال کی بلند ترین سطح پر آنے کی وجہ سے پرانی دہلی’ ہماچل پردیش’ اترا کھنڈ اور ہریانہ میں سیلابی صورتحال کی سنگینی کے پیش نظر سکول بند کر دیئے گئے ہیں اور عوام کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا رہا ہے جبکہ بھارت نے اپنے آبی ذخائر کے سپل وے کھول کر بھاری مقدار میں پانی پاکستان کے دریائوں جہلم اور ستلج میں ڈال دیا ہے جس کی وجہ سے پنجاب میں گزشتہ سالوں کی طرح سیلابی صورتحال کے خطرات پیدا ہو گئے ہیں جبکہ ہماری حکومتیں اس ناگہانی صورتحال سے نمٹنے کے لئے کیا اقدام اٹھا رہی ہیں اس بارے میں ذرائع ابلاغ خاموش ہیں’ سیلابی صورتحال کی پیشگی اطلاع دینے والے حساس آلات نہ ہونے اور ابھی حال ہی میں عالمی سطح پر معاہدے کے تحت یہ آلات منگوانے پر ابھی کچھ وقت لگے گا اور تب تک سیلابی صورتحال سے نمٹنے کے لئے پرانے طور طریقے ہی اختیار کئے جا سکتے ہیں جن سے ہنگامی صورتحال پر قابو پانے میں دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بہر حال حکومت کا فرض ہے کے وہ اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے نہ صرف سیلاب سے ممکنہ طور پر متاثر ہونے والے علاقوں کو حتی الامکان طور پر محفوظ بنانے کی کوشش کرے’ اگرخدانخواستہ سیلاب کی صورتحال جنم لیتی ہے تو متاثرہ علاقوں کے افراد کو بروقت محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے لئے ضروری اقدامات اٹھائے بلکہ ان نجی اداروں کو بھی متحرک کرے جو متاثرین کی امداد’ حفاظتی مقامات پر منتقلی اور ان کے لئے خوراک اور دیگر ضروری اشیاء کی فراہمی کے لئے اپنا کردار ادا کرتے ہیں، اگر خدانخواستہ سیلاب آتا ہے اور لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوتے ہیں توملک میں انتخابات کے انعقاد پر بھی سوال اٹھ سکتے ہیں’ اس لئے ان تمام معاملات کو سامنے رکھ کر حکومت پالیسیاں مرتب کرے۔

مزید پڑھیں:  استحصالی طبقات کاعوام پر ظلم