حکومت بی آر ٹی کے درپے کیوں؟

ہر ماہ دو ماہ بعد بی آرٹی کے حوالے سے حکومتی رویہ اور ادائیگیوں سے احتراز کے معاملات روزانہ اس سہولت سے استفادہ کرنے والے لاکھوں مسافروں کے لئے تشویش کا باعث امر ہے ہر بار سروس کی معطلی کی دھمکی دی جاتی ہے اور حکومت کو مالیاتی دبائو ڈالنے کے بعد عوامی دبائو پر فنڈز کا اجراء کرناپڑتا ہے جوکہ مستحسن امر ہرگز نہیں قبل ازیںخدمات فراہم کرنے والی کمپنی اورحکومت کے درمیان کچھ علاوہ ازیں قسم کے سمجھوتے کی بھی شنید تھی جو کچھ بظاہر بتایا جاتا ہے اس کے علاوہ باطن بھی کچھ ایسے عوامل اور امور ہیں جن کا تذکرہ شاید واضح طور پر نہیں کیا جاتامگران پس پردہ عوامل کونظر انداز بھی نہیں کیاجا سکتا بلکہ غیر واضح اور غیر مرئی معاملات کے باعث ہی بار بار معاملہ اٹھ رہا ہے جوکمپنی کے وقاراورحکومت کی ساکھ دونوں کے لئے کوئی مثبت امرنہیں کمپنی اور حکومت کو اس آنکھ مچولی کاایندھن عوامی سہولت کو بنانے سے گریز کرتے ہوئے اپنے معاملات طے کر لینے چاہئیں امرواقع یہ ہے کہ ایک مرتبہ پھر یہ مسئلہ سامنے لایاگیا ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت نے پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) چلانے والی نجی کمپنی کو دو ماہ سے ادائیگی نہ کرنے کے باعث کمپنی کے مطابق ان کے پاس ملازمین کو تنخواہیں اور بسوں کی مینٹیننس کی مد میں اخراجات کیلئے رقم نہیں کمپنی کا کہنا ہے کہ بقایاجات ایک ہفتے کے اندر اندر ادا نہ کئے گئے تو بس سروس معطل کردی جائیگی۔ نجی کمپنی کی جانب سے سیکرٹری ٹرانسپورٹ کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ اب تک 60کروڑ30لاکھ روپے کے بقایاجات کی ادائیگی نہیں کی جا سکی ہے سابق خط و کتابت کے باوجود کوئی مثبت جواب نہیں ملا ہے جو واضح طور پر ایک آنے والے بحران کی نشاندہی کرتا ہے جیسا کہ مئی کے آخر اور جون 2023 کے اوائل میں ہوا تھا جون کا مہینہ گزر گیا جب کہ مئی اور جون کے اخراجات کے لیے 90 ادائیگیاں موصول نہیں ہوئیں۔ معاہدہ کے مطابق گزشتہ مہینے کے اخراجات کی تفصیل جمع کرانے کے ادائیگی ہونی چاہئے ہر ماہ تاخیر سے ادائیگیوں کا یہ جاری عمل معاہدے کی صریح خلاف ورزی ہے۔حکومت کی جانب سے معاہدے کی بار بار خلاف ورزی اور تاخیری حربوں کاکوئی جواز نہیں سوائے اس کے کہ کہیں نہ کہیں حصہ داری کا شاید کوئی مطالبہ حائل ہو ایسا ہونا باعث تعجب اس لئے نہیں کہ سرکاری ادائیگیوں میں فائل کو پہیہ لگائے بغیر کام کا نہ ہونا ایک بدیہی حقیقت بن چکا ہے بہرحال ممکن ہے یہ تاثر درست نہ ہوجوبھی صورتحال ہوادائیگی میں تاخیر کا کوئی جواز نہیں اور معاہدے کی پاسداری حکومت کی اخلاقی وقانونی ذمہ داری ہے جس سے احتراز نہیں ہوناچاہئے۔

مزید پڑھیں:  من حیث القوم بھکاری