مشرقیات

کسی بھی معاشرے کو ظلم و زیادتی سے پاک کرنے، باہمی اعتماد و اعتبار اور عدل و انصاف کی فضا قائم کرنے کے لیے ایک اہم قدر امانت داری بھی ہے۔ یہ ایک ایسی بنیادی قدر ہے جسے کسی معاشرے کے ہر ایک فرد کے اندر پیدا کیے بغیر، اس معاشرے کو خوف، عدم اعتمادی، خیانت، دھوکا اور ظلم جیسی برائیوں سے پاک نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے ہر دور اور ہر معاشرے میں خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب اور تہذیب سے ہو، امانت داری کو پسند کیا گیا ہے۔ اسلام چونکہ دین فطرت ہے اور دنیا کو زندگی گزارنے کے لیے ایک بہتر جگہ بنانا، اس کے مقاصد میں سے ہے۔ اس لیے انسانیت کی اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے امانت داری کو ایک اہم مقام عطا کیا گیا ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امانت داری کو ایمان کا لازمی جزو قرار دیا ہے۔ آپۖ نے اکثر فرمایا: اس کا کوئی ایمان نہیں جو امانت دار نہیں اور اس کا کوئی دین نہیں جو عہد کا پابند نہیں۔ (مسند احمد، بروایت انس بن مالک)
قرآن کریم میں بھی امانت کی ادائیگی پر سخت تاکید کی گئی ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: بے شک اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں انھیں پہنچاو اور جب لوگوں کا فیصلہ کرو تو عدل و انصاف سے فیصلہ کرو، یقینا وہ بہتر چیز ہے جس کی نصیحت تمھیں اللہ کررہا ہے، بے شک اللہ سنتا ہے دیکھتا ہے۔(النسائ)
نیز فرمایا: بے شک اللہ تعالی خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔ (الانفال:)اس کے ساتھ ہی امانت داروں کے لیے قرآن میں جنت کی بشارت دی گئی ہے جو بڑی کامیابی کی ضمانت ہے۔
ارشاد ہے: اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی حفاظت کرنے والے ہیں، اور وہ جو اپنی گواہیوں پر قائم رہنے والے ہیں، اور وہ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرنے والے ہیں، یہی لوگ(بہشت کے) باغات میں مکرم و معزز ہوں گے۔(المعارج: 32-35)
ان ارشادات سے یہ پتا چلتا ہے کہ صفت امانت داری اللہ اور اس کے رسولۖ کے نزدیک کتنی اہم اور پسندیدہ چیز ہے۔ لیکن دوسری اقوام کا تو کیا گلہ کیا جائے، خود مسلمانوں کے اندر اب یہ صفت عنقا ہوتی جارہی ہے۔ عوام تو عوام، تعلیم یافتہ اور خواص کے طبقے میں بھی یہ صفت ناپید ہوتی جارہی ہے، جس کی وجہ سے پورا معاشرہ فسادات کی نذر ہوتا جارہا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ جہاں اللہ اور اس کے رسولۖ کے احکام کے حوالے سے ہماری عدم وفاداری اور اسلامی اقدار سے مجرمانہ روگردانی ہے، وہیں اس کی دوسری وجہ اسلامی تعلیمات سے دوری کی وجہ سے امانت داری کا ناقص فہم و تصور بھی ہے۔
عام طور پر امانت اس چیز کو کہتے ہیں جس کا کسی کو ذمے دار اور امین بنایا جائے یا جس کے سلسلے میں کسی پر اعتبار کیا جائے۔ اس لیے امانت داری کے سلسلے میں لوگوں کا ذہن صرف اس طرف جاتا ہے کہ اگر کسی نے کچھ روپیہ یا مال و اسباب یا دیگر کوئی اور چیز ہمارے پاس رکھ چھوڑا ہے، تو ہم اس کے امین ہیں اور جب وہ اسے طلب کرے تو بلاکسی کمی کے ہم اسے واپس کردیں۔ بلاشبہ یہ بھی امانت داری ہے، لیکن اسلام میں امانت داری کا تصور یہیں تک محدود نہیں ہے بلکہ انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہے۔

مزید پڑھیں:  مہنگائی میں کمی کے عوامل