مسلسل بڑھتی مہنگائی

پاکستان میں سالانہ بنیادوں پر ہفتہ وار مہنگائی میں 28 اعشاریہ نوفیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔مہنگائی موجودہ نظام کا ایک لازمی جزو ہونے کی حیثیت سے نظام میں یوں سرایت کر گئی ہے کہ مہنگائی کی طوفانی لہر جو پچھلے چند سالوں سے شدت کے ساتھ پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے، اب برداشت کی تمام حدود پار کر رہی ہے۔ تیل، چینی، آٹا، دالیں، سبزیاں، انڈے، گوشت، بجلی وگیس کے بل اور سکول فیس آبادی کے بڑے طبقے کی برداشت سے باہر ہو چکے ہیں۔مہنگائی کی ایک بڑی وجہ حکومت کی جانب سے ڈیمانڈ سپلائی کے میکینزم کی نگہداشت میں نااہلی اور کرپٹ حکومتی عہدیداروں کا اس عمل کی نگہداشت میں بڑے بڑے سرمایہ داروں کو سپورٹ کرنا ہے، جس سے مارکیٹ میں اشیائے ضرورت کی کمی کی وجہ سے ان کی قیمتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے جمہوری حکمران عالمی طاقتوں اور مقامی سرمایہ داروں کے فرنٹ مین بن کر سپلائی چین کو ہائی جیک کرنے کی کوششوں میں کوئی مداخلت نہیں کرتے بلکہ الٹا ان کی بلیک میلنگ میں آ کر ان کے سامنے سر جھکاتے ہیں۔ یہ سرمایہ دار ذخیرہ اندوزی کر کے اور کارٹیل بنا کر سپلائی کی قلت پیدا کرتے ہیں تاکہ اشیا کی قیمت بڑھا کر دن دوگنا، رات چوگنا منافع کما سکیں۔دوسری جانب حکومت آئی ایم ایف کو ڈالر کی قسطیں پوری کرنے کے چکر میں ضروری اشیا درآمد ہی نہیں کرتی یا تاخیر سے درآمد کرتی ہے خواہ و تیل، LNG ہو یا گندم، چینی اور دیگر اجناس، تاکہ ڈالر کو بچا کر کرنٹ اکانٹ کا خسارہ کم کیا جا سکے اور بین الاقوامی سود خوروں کی قسطیں پوری کی جا سکیں خواہ عوام کے پاس دو وقت کے کھانے کی روٹی ہی کیوں نہ ختم ہو جائے۔ یوں سپلائی کی قلت قیمتوں کے بڑھنے پر منتج ہوتی ہے اور مہنگائی کا سبب بنتی ہے۔مہنگائی میں اضافے کی تیسری بڑی وجہ توانائی کی قیمت میں ہوشربا اضافہ ہے جس سے کاروباری اور تجارتی سرگرمیوں کی لاگت میں اضافہ ہوتا ہے۔ بجلی بنانے کے کارخانوں کی نجکاری سے انرجی انفراسٹرکچر عوامی اور ملکی کنٹرول سے نکل کر چند ملٹی نیشنل سرمایہ داروں کے قابو میں آ جاتا ہے جو توانائی کی فراہمی اور اس کی قیمتوں پر بڑی حد تک اثر انداز ہوتے ہیں۔مہنگائی میں اضافے کی ایک اور بڑی بنیادی وجہ سرمایہ دارانہ معیشت میں ٹیکس کا نظام ہے جو بلواسطہ اور بلا واسطہ ٹیکسوں پر مشتمل ہے۔ ان میں سے اکثر ٹیکس خصوصی طور پر بلا واسطہ ٹیکس، تمام اشیا اور خدمات پر بالعموم لاگو کیے جاتے ہیں جس وجہ سے اشیا اور خدمات کی قیمتیں اپنی اصل قیمتوں سے بہت زیادہ بڑھ جاتی ہیں۔ اس کی ایک مثال پٹرولیم مصنوعات کی اصل قیمتوں پر لاگو کیا جانے والا جنرل سیلز ٹیکس اور پٹرولیم لیوی ہیںجب تک ان تمام وجوہات اور عوامل کاتفصیلی جائزہ لے کر ان پر قابو پانے یا کم از کمی لانے پر توجہ نہیں دی جائے گی مہنگائی کے اس سیلاب کے آگے بند باندھنا ممکن نہیں ہوسکے گا۔

مزید پڑھیں:  مہنگائی میں کمی کے عوامل