پاکستان اور اسلامی جمہوریہ

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا مدینہ طیبہ میں خاتم النبیینۖ کے مبارک ہاتھوں سے قائم پاک ریاست کے قیام کے تقریباً چودہ سو برس بعد اس زمانے میں جب خلافت عثمانیہ تحلیل ہو رہی تھی اور اسلامی دنیا میں قومیت اور نیشنلزم کی بنیاد پر ملک اور حکومتیں وجود پا رہی تھیں برصغیر پاک و ہند واحد خطہ تھا جہاں کے اسلامیان نے نیشنلزم کو رد کرتے ہوئے خالص اسلامی تشخص کی بنیاد پر پاکستان حاصل کیا۔ بابائے قوم کی فکر اس لحاظ سے بالکل واضح اور صاف تھی کہ پاکستان میں بے شک ملائیت نہ ہوگی لیکن آئین، قرآن و سنت کا نچوڑ ہوگا، پاکستان کا مطلب کیا ؟ لالہ الااللہ جیسے بھی تھا تحریک پاکستان کی بنیاد بنا، اگرچہ بعد میں قوم پرستوں، آزادمنشوں، سرمایہ داروں، جاگیرداروں، سیاستدانوں اور مفاد پرستوں نے اس کی ہزار تاویلیں کرنے کے جتن کئے لیکن عوم اس بات پر مصر رہے کہ پاکستان کا مطلب لالہ الاللہ ہی ہے آج اس گئے دور میں بھی اگر صاف و شفاف انداز میں عوام پاکستان سے پوچھا جائے کہ پاکستان میں کون سا نظام سیاست و حکومت ہونا چاہئے تو ننانوے فیصد لوگ اسلامی نظام کے حق میں رائے دین گے، لیکن یہ ہماری کتنی بدقسمتی ہے کہ گزشتہ پچھتر برس سے وطن عزیز میں نام تو اسلام کا لیا جا رہا ہے لیکن یہاں اسلامی فلاحی ریاست کیلئے اسلامی قوانین تو کیا نافذ ہوتے یہاں تو اسلام کی بڑی بڑی شقوں کی دن رات خلاف ورزی ہوتی رہی ہے۔
اب دیکھیں نا! اسلام میں انسانی جان کی کتنی عظیم حرمت بیان ہوئی ہے کہ انسانی جان کے قتل کے بدلے قتل اور فساد فی الارض کی سزا میں قتل کے علاوہ کسی انسانی جان کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے برابر قرار دیا گیا ہے اور کسی ایک انسانی جان کی حفاظت کو پوری انسانیت کی حفاظت کے مترادف قرار دیا گیا ہے لیکن وطن عزیز میں سب سے ارزاں چیز انسان کا خون ہے، دن دیہاڑے غریب و معصوم لوگ قتل ہو جاتے ہیں اور کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی، ستم بالائے ستم کہ امیر کبیر لوگوں کی بگڑی اولاد دولت و اقتدار کی سرمستیوں اور خرمستیوں میں کئی انسانی جان کی معصوم کلیوں کو پائوں سے مسل دیتے ہیں لیکن ان کا کوئی بال بھی بیکا نہیں کرسکتا، کبھی پیسوں کے زور پر عدالتوں کے ذریعے گواہ اور دیگر معاملات کو متاثر کرکے چھوٹ جاتے ہیں اور کبھی ورثاء مقتول کو مزید خرابی سے ڈرا دھمکا کر خاموش کرادیتے ہیں اور نتیجتاً
نہ مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا
یہ خون خان نشنیاں تھا رزق خاک ہوا
ہم پاکستانی عجیب لوگ ہیں دنیا میں اپنے آپ کو اسلام کے نام اور حوالے پر مشہور کر رکھا ہے لیکن حقیقت میں اسلامی دنیا کے اکثر ان ملکوں سے جہاں اسلام کے نعرے دعوے بلند نہیں ہوتے لیکن اسلامی قوانین اور اخلاقیات پر عملدرآمد ہوتا ہے سے بہت پیچھے ہیں۔ سعودی عرب کو دیکھیں جہاں سے دنیا بھر میں اسلام پھیلا ہے لیکن وہاں کوئی نعرہ اسلام کے حوالے سے موجود نہیں ان کے ملک کا سرکاری نام سیدھا سادہ المملکتہ العربیتہ السعودیہ ہے، اس میں اسلام کا کوئی سابقہ لاحقہ موجود نہیں لیکن مجال ہے کہ جو کچھ دن رات پاکستان میں زندگی کے ہر شعبے میں ہو رہا ہے وہاں اس کا تصور بھی کیا جاسکے۔ واللہ ان کی آمریت ہماری ہاں کی ہزار جمہوریتوں سے بہتر ہے، عوام کو روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم اور صحت کے بہترین مواقع میسر ہیں، ایک ڈسپلن کے تحت امور زندگی نمٹائے جاتے ہیں، دل پر ہاتھ رکھ کر کوئی بتائے کہ کیا جو کچھ پاکستان میں جمہوریت کے نام پر ہو رہا ہے اور گزشتہ پچھتر برس سے ہو رہا ہے اس سے کوئی بھی ایسا نظام جس میں انسانوں کے جان و مال اور آبرو محفوظ ہو بہتر نہیں ہے۔ واللہ ہم سے الگ ہونے والا بنگلہ دیش اسلامیت کے حوالے سے ہم سے کی درجے بہتر ہے لیکن انہوں نے بھی سیدھا سادہ عوامی جمہوریہ بنگلہ دیش کا نام اختیار کیا ہمارے پڑوس میں ایران میں انقلاب کے بعد انہوں نے عوام سے باقاعدہ ریفرنڈم کے ذریعے ایران کے نئے نام اسلامی جمہوریہ ایران کے حوالے سے استفسار کیا اور عوام کی اکثریت نے اس کی تائید کی اور حقیقت یہ ہے کہ اپنے عقائد کے مطابق وہ اسلامی شعائر کی حفاظت کیلئے اندرون و بیرون ملک ہر وقت مستعد رہتے ہیں۔
شاید وقت آن پہنچا ہے کہ ہم اپنے وطن عزیز کے حوالے سے منافقت کی کیفیت سے نکل کر حقیقت کی دنیا میں آجائیں اور عوام سے ایک صاف و شفاف ریفرنڈم کے ذریعے پوچھ لیں کہ اگر آپ لوگوں کو پاکستان میں اسلامی نظام چاہئے تو پھر اس حوالے سے تذبذب کی کیفت سے باہر آنا ہوگا اور اسلامی جمہوریہ یاکستان کو صحیح معنوں میں اسلامی بنانا ہوگا۔ پاکستان کی معیشت، سیاست اور معارشت کا کونسا شعبہ ہے جہاں اسلامی تعلیمات کی کوئی گہری چھاپ موجود ہے، سیاست میں سوائے تجارت، لوٹا کریسی اور مفاد پرستی کے اور کیا ہے، موجودہ سیٹ اپ اور کشمیر و گلگت بلتستان میں رجیم چینج نے تو رہی سہی جمہوریت کا جنازہ نکال کر رکھ دیا گیا ہے۔ یہی حال عدلیہ کا ہے کیا کسی عدلیہ میں سیاست کی بنیاد پر اس قسم کی دھڑے بندی بھی ہوسکتی ہے جس طرح آج ہمارے ہاں ہوئی ہے۔ کیا کسی اسلامی ریاست میں اس کا بھی تصور ہوسکتاہے کہ عدالت عالیہ کا قاضی القضاة 14 مئی کو انتخابات کرانے کا فیصلہ دے اور اسی اسلامی ملک کے انتخابات کو عملی شکل دینے کے پابند ادارے صاف انکار کر دیں، بیوروکرسی تو آج بھی اسی انگریز بہادر کے نہج پر رواں دواں ہے جس پر اس نے ابتداء کروائی تھی۔
سیاسی جماعتوں میں جماعت اسلامی کے علاوہ دیگر ساری جماعتوں کو سیکولر، لبرلز اور قوم پرست ہونے پر فخر ہے اور بہت دھڑلے کے ساتھ اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ ہم سیاست میں مذہبی کارڈ کے استعمال کے سخت خلاف ہیں لیکن منافقت اس حد تک پھیلی ہوئی ہے کہ ضرورت پڑنے پر سیکولر اور لبرلز بھی مذہب کی آڑ میں پناہ لینے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے اور اسی طرح ہماری مذبی سیاسی جماعتیں اپنی ضرورت کے تحت مارشل لاء اور سیکولر جماعتوں کے ساتھ اتحاد اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کوعین اسلام سمجھتے ہیں۔ کہنے کو ہمارا قومی شعار اتحاد، یقین اور تنظیم ہے لیکن کیا ہم نے کبھی اس پر ایک دن کیلئے عمل کیا ہے، کیا گزشتہ پچھتر برس میں ہم پاکستانی قوم بن سکے ہیں، اسلامی پاکستان تو بہت دور کی بات ہے بس لوگوں کا ایک انبوہ ہے جو صبح ہوتے ہی روٹی کے حصول کیلئے پورے ملک میں پھیل جاتا ہے، البتہ بھارت کے ساتھ کرکٹ میچ کے موقع پر کچھ پاکستانیت کا شائبہ نظر آجاتا ہے ورنہ عید محکوماں ہجوم مؤمنین کے سوا کچھ بھی نہیں۔
پاک افواج جس پر ہمیں بڑا فخر ہے لیکن اس کی بنیادوں میں بھی انگریزی افواج کی خمیر آج بھی پایا جاتا ہے یہاں تک کہ1917ء میں فلسطین پر قبضہ کرنے والی برطانوی افواج میں ہمارے آباؤ اجداد بھی بطور سورما موجود تھے، تحریک پاکستان کے حوالے سے ہماری افواج کے پروفیشنل کردار کے بارے میں جنرل ایوب خان کی مشہور تصنیف ”آقا نہیں دوست ” میں زبردست ثبوت موجود ہے اور1947ء میں کشمیر پر بھارتی افواج کے مقابلہ کیلئے جب قائداعظم نے پاک افواج کے چیف آف سٹاف جنرل ڈگلس کو کشمیر میں فوجیں اتارنے کا حکم دیا تو اس کا جواب تھا کہ مسٹر جناح میں سر کلاڈآکنلک کے احکام کا پابندہوں، اب بھی وقت ہے کہ ہم گوں مگوں کی کیفیت سے نکلیں اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے محفوظ ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تین مقامات پر فرمایا ہے اور جو (لوگ) اس (قانون) کے مطابق فیصلے نہیںکرتے جو اللہ نے نازل کیا وہ کافر ہیں ظالم ہیں اور فاسق ہیں” اللہ سے دعا ہے کہ پاکستان صحیح معنوں میں اسلامی جمہوریہ پاکستان بنے۔

مزید پڑھیں:  بار بار کی خلاف ورزیاں