ہر ایک کشتی میں سوراخ کر رہا ہے

دین اسلام کے ساتھ ہمارا تعلق بہت گہرا ہے، پیدا ہوتے ہی ہمارے کان میں اذان دی جاتی ہے، ختنے کروائے جاتے ہیں، ہمیں بڑی سوچ بچار کے بعد اسلامی نام دیئے جاتے ہیں، اس ملک کی کل آبادی کے ساڑھے ستانوے فیصد مسلمان بنیادی عقائد سے بھی واقف ہیں، ہمیں جنت اور دوزخ کا بھی علم ہے اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ حساب کتاب بھی ہونا ہے، اسی طرح ہم ارکان اسلام سے بھی واقفیت رکھتے ہیں، پوری دنیا میں مساجد کی تعداد کے اعتبار سے ہمارا چوتھا نمبر ہے، ہر مسافر خانے، ہوٹل میں، دفتر میں ، سکول میں، کالج میں، یونیورسٹی میں، ہسپتال میں، پارک میں، بس اڈے میں، ریلوے سٹیشن میں، ہوائی اڈے میں، ہر بازار میں ہر گلی میں ، ہر محلے میں کئی مساجد موجود ہیں، یعنی ہم نماز پڑھتے ہیں اور ہماری خواتین بھی زیادہ تر نمازی ہیں، ہم زکواة اور صدقہ و خیرات بھی کرتے ہیں کیونکہ مجموعی قومی پیداوار کے تناسب سے پاکستان خیرات کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے، ہم روزے بھی رکھتے ہیں اور رمضان کا احترام بھی کرتے ہیں اور ماہ رمضان میں کھانے پینے پر ہر جگہ مکمل پابندی ہوتی ہے، حاجیوں کی تعداد کے لحاظ سے ہم دنیا میں دوسرے نمبر پر اور عمرہ کرنے والوں کی تعداد کے لحاظ سے دنیا بھر میں پہلے نمبر پرہیں، ہمارے ہاں تبلیغ کے اتنے بڑے اجتماعات ہیں کہ اب جگہ کم پڑگئی ہے، ہم داڑھیاں بھی رکھتے ہیں اور خواتین پردہ بھی کرتی ہیں، ہمارے ہاں کئی اسلامی چینل ہیں، کئی ریڈیو مسلسل تلاوت نشر کرتے ہیں، ہمارے ہاں کئی دینی سیاسی اور غیر سیاسی جماعتیں بھی ہیں، یہاں ایک لاکھ سے زیادہ دینی مدارس ہیں، پچاس لاکھ سے زیادہ علماء کرام ہیں، ہمارے سکولوں میں کچی سے لے کر بی اے تک دین کی تعلیم لازمی ہے، ہم سب دین دار ہیں مگر کیا وجہ ہے کہ ہماری زندگیوں میں اس دین کا وہ اثر نہیں ہے، بیت اللہ میں بھی ہم لوگ لڑائی کر جاتے ہیں، ایک دوسرے کو دھکے دیتے ہیں، چوریاں بھی ہوتی ہیں، مسجد نبویۖ میں بھی لوگ ایک دوسرے سے لڑتے اور بدتمیزیاں کرتے نظر آتے ہیں، ایک منٹ کے لئے اپنے معاشرے کا جائزہ لیں کہ وہ کون سی برائی ہے جو ہمارے اندر موجود نہیں ہے، بداخلاقی کو تو ہم برائی سمجھتے ہی نہیں ہیں، حرام خوری، زنا، شراب، جھوٹ، غیبت، فخروغرور، حسد، بغض، بد گمانی، ناشکری ہمارے ہاں بالکل عام ہیں، بہتان، منافقت، ریاکاری، احسان جتانا، لعن طعن، ظلم، ایذا رسانی، رشوت، سفارش، خوشامد، اقرباء پروری کے بغیر تو ہمارا کوئی کام نہیں ہوتا، خیانت، ملاوٹ، شرک و بدعات، جادو ٹونے ہر گھر کی کہانی ہیں، مغرب کی اندھی تقلید، بھونڈے فیشن، شخصیت پرستی، اندھی تقلید سے بڑی بھی کوئی جہالت ہو گی کیا، بد زبانی، گالی گلوچ، لڑائیاں،قتل و غارت، خود کشیاں کس قدر عام ہیں، اور کیا وجہ ہے کہ کوئی بھی عالمی درجہ بندی اٹھا کر دیکھیں ہم سب سے نیچے ہی ہوں گے، میں نے یہاں مختلف درجہ بندیاں جمع کی ہیں، ان میں شامل ممالک کی اوسط تقریبا ایک سو اسی ممالک ہیں، ایمانداری کے انڈکس کے مطابق پاکستان کا درجہ ایک سو ساٹھواں ہے، عدالتیں نیچے سے چوتھے درجے پر ہے، دنیا کا چوتھا کمزور ترین پاسپورٹ ہمارا ہے، سب سے گندا شہر لاہور اور ناقابل رہائش شہروں میں کراچی کا ساتواں درجہ، آبادی میں اضافے کی شرح سب سے زیادہ ہونے کی وجہ سے آبادی میں اب پانچویں درجے پر آگئے ہیں، بزرگوں کے لئے چھٹا برا ملک ہمارا ہے،پولیو صرف دو ممالک میں باقی ہے، معیاری زندگی کی درجہ بندی میں ١٢٣، سکول نہ جانے والے بچوں کے اعتبار سے دوسرے درجے پر، بچوں کے رہنے کے لئے ١٤٧ درجے پر ہیں، طلبہ کی کارکردگی کی درجہ بندی میں بالکل نیچے ہیں، ایک سال میں آٹھ لاکھ ہنر مند نوجوان ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں، انٹرنیٹ کے غلط کے استعمال مں پہلے درجے پر ہیں، جھوٹ بولنے والے پہلے تین ممالک میں شامل ہیں، بدعنوانی میں ١٤٠، ناکام ریاست میں نیچے سے تیرہواں درجہ، انسانی ترقی میں ١٤٦، خوشحالی کے اعتبار سے ١٢٣، شرح خواندگی میں ١٥٩، زرمبادلہ کے ذخائر میں ١٧٢، برآمدات میں ٦١، درآمدات میں پیش پیش، کاروبار کے لئے میسر سہولیات میں ٧٦، قدرتی گیس کے ذخائر میں اب ٢٩، صحافیوں کے لئے مشکل ترین ملک، بھوک کے اعتبار سے ٢٢، صحت کی سہولیات کے اعتبار سے نیچے، کم عمری میں تمباکو نوشی میں ١٤، ماں کی صحت کے اعتبار سے بھی بالکل نیچے،ایسا اس لئے ہے کہ ہیں تو ہم سب دین دار لیکن ہم نے دین اور دنیا کو الگ الگ کر دیا ہے، ہر شخص اپنی بساط کے مطابق بدعنوانی کا مرتکب ہے، میٹر ریڈرغلط ریڈنگ کر رہا ہے، خالص گوشت کے پیسے وصول کرنے والا ہڈیاں اور پانی والا گوشت دے رہا ہے، دودھ والا پانی اور پاوڈر ملا رہا ہے، نانبائی روٹی کا وزن کم کر رہا ہے، پولیس والا اختیار کا غلط استعمال کر رہا ہے، الا ماشاء اللہ ہر دکاندار کم ناپ تول رہا ہے، ریڑھی والا راستہ بند کرکرے کھڑا ہے، سبزی اور پھل والا گلا سڑا سامان دے رہا ہے، معمولی سی رقم کے لیے وکیل سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنا رہا ہے، کوئی وکیل خرید رہا ہے اور کوئی جج، بچہ بھی سودے میں سے پیسے غائب کررہا ہے، افسر ہو یا چپڑاسی رشوت یا سفارش کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا ہے، کھلاڑی میچ فکسنگ میں ملوث ہے، نوجوان نسل ساری ساری رات جاگ کر نمازوں سے غافل ہے، سیاسی نمائندے اور ٹھیکیدار کروڑوں کے غبن کر رہے ہیں، پٹواری اور محکمہ مال کے افسر زمین کی پیمائش میں کمی بیشی کر رہے ہیں، دوائوں کے کمیشن میں ڈاکٹر عمرے کر رہے ہیں، صحافی اپنے قلم کو بیچ رہے ہیں، سیاست دان اقتدار کی خاطر تمام حدیں عبور کر چکے ہیں، مولانا صاحب دین سے زیادہ اپنا مسلک سکھا رہے ہیں، قوم کا معمار گھر بیٹھ کر تنخواہ لے رہا ہے، پروفیسر اپنی ترقی کی خاطر بے مقصد اور لایعنی تحقیق کرکے سب سے بڑی علمی خیانت کے مرتکب ہو رہے ہیں، اسی لئے ٹائم ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جاری کردہ جامعات کی عالمی درجہ بندی میں دنیا کی چار سو بہترین جامعات میں ایک بھی پاکستانی یونیورسٹی شامل نہیں ہے، اس فہرست میں سعودی عرب اور ایران کی کئی جامعات شامل ہیں، ہم میں سے ہر ایک دوسرے پر الزام لگا کر خود کو بری الذمہ سمجھنے لگتا ہے، دوسرے کیا کرتے ہیں اس بارے میں ہم سے کچھ نہیں پوچھا جائے گا، ہم سے صرف ہمارے اعمال کے بارے میں سوال کیا جائے گا، ہر شخص کو اپنا جواب دینا ہوگا، ہم اس حال تک کیوں پہنچے ہیں اور اس میں سے باہر کیسے نکلیں گے اس کے لئے فرد کا کردار سب سے اہم ہے، کوئی حکومت کوئی ادارہ خراب نہیں ہے، ہم خود ٹھیک نہیں ہیں اور جب ہر کوئی کشتی میں سوراخ کررہا ہے تو یہ کہنے کا کیا مطلب ہے کہ میں نے تو چھوٹا سوراخ کیا ہے، بڑے سوراخ تو اوروں نے کئے ہیں۔

مزید پڑھیں:  چوری اور ہیرا پھیری