پاک ایران سرحدی تجارت

پاک فوج کے سربراہ کی ایرانی قیادت سے ملاقات اورمختلف شعبوں بطور خاص دہشت گردی کی لعنت کے خاتمے کے لئے کوششوں او روابط کو مزید مضبوط بنانے کا عزم ایک نئے دو کی ابتداء ہے قبل ازیں وزیراعظم شہباز شریف اور ایرانی صدرابراہیم رئیسی مندپشین سرحد پر سرحدی بازار کا افتتاح کرکے اس کی بنیاد رکھی تھی ۔ ایرانی صدر نے بری فوج کے سربراہ سے ملاقات کے موقع پرایک بارپھر محفوظ اقتصادی سرحدوںکی ضرورت کااعادہ کیا۔ تاہم جب بھی اس طرح کی اعلیٰ سطحی ملاقاتیں اورمفاہمتیں ہوئی ہیں توبگاڑ پیدا کرنے والے عناصر بھی متحرک ہوئے ہیں پاکستان اور ایران کے درمیان قربت اورتعاون سے بڑی عالمی طاقتوں اور ہمسایہ ملک بھارت کے پیٹ میں مروڑ اکثراٹھتا رہا ہے جس سے بوکھلا کر سرحدی صوبہ بلوچستان میںحالات خراب کرنے والے عناصر کو شہ دی جاتی رہی ہے جن سے مقابلہ کرنا پڑتا ہے اور ایسے میں توجہ کابٹ جانااور معاملات میں سست رفتاری آنا فطری امر ہوتا ہے دیکھا جائے تو پاکستان اور ایران کے تعلقات میں بہتری کی راہ میں رکاوٹ بننے والی ایک بڑی رکاوٹ دونوں ریاستوں کی مشترکہ سرحد پرسرگرم دہشت گردی اورانتشارپرآمادہ عناصرہیں ان عناصر اور سیکورٹی کے اداروں کے درمیان جان لیوا تصادم کے واقعات تسلسل سے پیش آنے کے باوجود صورتحال پرقابو نہیں پایا جا رہا یہ صورتحال پاکستانی اور ایرانی دونوں اہلکاروں کے لئے سخت مشکلات کاباعث ہونے کے ساتھ ساتھ بعض اوقات دونوں ملکوں کے درمیان بھی غلط فہمی کا باعث بن جاتا ہے ۔پاک ایران سرحدی علاقے سمگلروں کی بھی جنت ہیں جن کی روک تھام قانونی تجارت کے فروغ کے لئے ضروری ہیں یہ مسائل اور عوامل اس امر کے لئے ضروری ہیں کہ ان پر قابوپانے کے لئے دونوں ملکوں کے فوجی اور سرحدی حکام کے درمیان مزید روابط استوار ہوں اور مل کر اس صورتحال پر قابوپانے کی سعی کی جائے پاک فوج کے سربراہ کا دورہ اور اعلیٰ ایرانی قیادت سے مشاورت کے بعد اس امر کی بجا طور پر توقع کی جاسکتی ہے کہ سرحد پر تجارت اور سرحدی بازاروں کے تحفظ کے یقینی اقدامات ہوں گے جس کے نتیجے میں سرحدی تجارت اور تعاون میں اضافہ ہوگا اور سرحدی اقتصادی بازار آباد ہوں گے جس سے دونوں ملکوں کا کاروباری طبقہ مستفید ہوگا نیز ان بازاروں میںمال کے بدلے مال کی تجارت اور دونوں ممالک کی مصنوعات کو فروغ حاصل ہوگا ایران کے معیاری مصنوعات کی مانگ کے پیش نظر تجارت میں ان کاپلہ بھاری ہونا فطری امر ہے بنا بریں ترازو کے پلڑے برابر رکھنے اور تجارتی خسارے میںکمی لانے کے لئے ہمیں ایسے اشیاء ‘ مصنوعات کی تجارت پرتوجہ دینے کی ضرورت ہو گی جس کی سرحد پار مانگ ہو۔وقت کی ضرورت ہے کہ تجارت کے حجم کوبڑھایاجائے اوراسے موجودہ پانچ سوملین ڈالر کے عدد سے کئی گنازیادہ کیا جائے۔

مزید پڑھیں:  من حیث القوم بھکاری