افغان مہاجرین اور پاکستان کے مسائل

افغان جنگ جسے ہم جہاد اور مغرب سرد جنگ کے خاتمہ کے لیے بنایا گیا ایک منصوبہ کہتی ہے کو ختم ہوئے بھی تیس برس سے زائد ہوچکے ہیں ،روس افغان جنگ شروع ہونے سے چند برس پہلے ہی ہماری ترجیحات تبدیل ہونا شروع ہوگئی تھیں ہم نے اپنے آپ کو اس جنگ کے لیے تیار کرنا شروع کردیا تھا ہم نے تعلیمی نصاب سے شروعات کیں اور عملی طور پر نوجوان نسل کو امریکی وضع کردہ جہادی تربیت و ترغیب دینا شروع کردی تھی ، یوں ہم عملاً معاشی ، معاشرتی ،اقتصادی اور تعلیمی ترقی کی جگہ حربی فوائد کی طرف راغب ہوئے ، افغان جنگ شروع ہوئی اور پاکستان میں لاکھوں کی تعداد میں افغانی پناہ کی تلاش میں داخل ہوئے ، افغان سرحدوں پر واقع شہروں میں ہزاروں مہاجرکیمپ بنائے گئے ، اور کوئی ایسی پالیسی نہیں بنائی گئی کہ یہ جو ایک پورا ملک ہمارے سرحدات عبور کرکے یہاں آچکا ہے اس کا انتظام کیسے کرنا ہے ، ایران نے اپنے سرحدوں پر کچھ کیمپ بنائے اور مہاجروں کو اس تک محدود کیا اور جونہی جنگ کا خاتمہ ہوا تمام مہاجروں کو ان کے وطن واپس بھیج دیا ۔ پاکستان میں مہاجرین کو کھلی آزادی دی گئی وہ پورے پاکستان میں بغیر کسی دستاویزی شناخت کے گھومتے رہے ، کاروبار کرتے رہے اور یہاں اپنی آبادی میںاضافہ کرتے رہے ۔ جنگ ختم ہوگئی مگر ان کی واپسی کو ممکن نہ بنایا جاسکایوں پاکستان نے اس جنگ کی بہت بڑی قیمت چکائی اس لیے کہ ہم نے اپنے اقتصادی و معاشی اور تعلیمی ترقی کو اس جنگ کے وجہ سے قربان کردیا ، ہماری اکانومی صنعت ، زراعت ،حرفت اور معیشت کی بنیاد کے بجائے حربی آمدن پر انحصار کرنے لگی ہمارے تمام منصوبے اس سوچ اور رُخ پر بننے لگے ، اور دوسری طرف ہماری آبادی میں بے انتہااضافہ ہونا شروع ہوگیا ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں عملی طور پر ترقی کا عمل رک گیا ۔اس جنگ کی وجہ سے پاکستان میں کلاشنکوف کلچر، ہیروئن کلچر متعارف ہوا اور سمگلنگ کا ایک لامتناہی سلسلہ چل پڑا جو آج تک اسی زور و شور سے جاری و ساری ہے ۔ اس وقت پاکستان میں حکومتی اعداد و شمار کے مطابق چھ ملین سے زیادہ افغانستانی شہری موجود ہیں یہ ان کی اصل تعداد نہیں اصل تعدا د اس ے کہیں زیادہ ہے ۔ نوے کی دہائی تک ان مہاجرین کے لیے ورلڈ فوڈ پروگرام اور دیگر امدادی اداروں کی طرف سے امداد آتی تھی لیکن وہ سلسلہ بھی موقوف ہوگیا ۔افغان جنگ کی وجہ سے پاکستان میں مرنے والوں کی تعداد ستر ہزار سے زائد بتائی جاتی ہے ۔پاکستان نے افغانستان کے ان لوگوں کی جتنی مدد کی ہے دنیا میں اس کی نظیر نہیں ملتی لیکن آج افغانستان میں بمشکل ہی کوئی ہوگا جو ہمارا ہم خیال ہو ،افغان نسل ہم سے نفرت کرتی ہے وہ سب بھارت کے گن گاتے ہیں ، جس دن پاکستان بھارت کا کرکٹ میچ ہو اور بھارت جیت جائے تو آپ پشاور اوردیگر شہروں کی سڑکوں پر افغان مہاجروں کے جشن ملاحظہ کیجئے آپ کو اندازہ ہوجائیگا اگر سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں تو وہاں موجود لاکھوں افغانستانیوں کا رویہ دیکھ لیں اندازہ ہوجائے گا ۔ اس کے باوجود ہم نے ان کو اپنے ملک میں جگہ دی ہوئی ہے ۔جن کی وجہ سے ہماری کئی نسلیں تباہ ہوئیں ہماری تعلیمی ، اقتصادی و معاشی ترقی رُک گئی ہمارے پاس اس بوجھ کے لیے آج بھی کوئی پالیسی نہیں ہے ۔ اب آتے ہیں ان نقصانات کی طرف جو آج ان کے یہاں ہونے سے ہمیں ہورہے ہیں ۔ ساٹھ لاکھ سے زائد افراد جو کوئی ٹیکس نہیں دیتے ان کا بوجھ ہماری زراعت اور دیگر وسائل پر پڑرہا ہے اس وقت ملک میں بے روزگاری کی صورتحال تشویشناک حدتک بڑھ گئی ہے اگر ان ساٹھ لاکھ لوگوں کو ان کے وطن بھیج دیا جائے تو یہاں بہت فرق پڑسکتا ہے ، مہنگائی کی سطح کم ہوجائے گی ، پیٹرول وڈیزل کی استعمال کی شرح کم ہوجائے گی ، بجلی اور گیس پر دباو کم ہوگا ، گندم ، چینی اور دیگر اجناس کی قیمتوں پر اس کا اثر پڑے گا۔رہائش کے بے شمار مسائل حل ہوجائیں گے ، یہاںکے سکولوں ، کالجوں اوراسپتالوں پر رش کم ہوگا ۔ پبلک ٹرانسپورٹ پر بوجھ کم ہوگا ، لیکن ان سب سے بڑھ کر جو فائدہ ہوگا وہ یہ کے یہاں لاقانونیت ، اغوا، بھتہ خوری ،ٹیکس کی چوری منشیات اور اسمگلنگ کا خاتمہ ممکن ہوگا ۔ اس لیے کہ پاکستان میں منشیات افغانستان سے ہی افغانستانی باشندے سمگل کرکے لاتے ہیں اور پھر پاکستان کو بدنام کرکے یہاں سے سمگل کرکے دنیا بھر میں لے کر جاتے ہیں ۔اسلحہ کا سارا کاروبار بھی یہی لوگ کرتے ہیں۔اور منی لانڈرنگ یعنی پیسے کا غیر قانونی دھندا اس ملک میں ستر فیصد یہی افغانستانی باشندے کرتے ہیں ، کراچی ، پنڈی، کوئٹہ، پشاور ، مردان ، چکدارہ اور بے شمار دیگر علاقوں میں ان کے سمگلروں اور دیگر غیر قانونی کام کرنے والے گینگ ہیں ۔ جو ہر قسم کے غیر قانونی کاموں کے لیے دستیاب ہوتے ہیں ، ملک میں بد امنی کا سب سے بڑا سبب یہی لوگ ہیں ۔ اس ملک کی معیشت بہت زیادہ کمزور ہے اس کی وجہ یہی لوگ ہیں اس لیے کہ غیر قانونی طریقے سے یہ ملک سے پیسہ جمع کرتے ہیں اور ان پیسوں سے ملک میں ڈالر خرید کر افغانستان منتقل کرتے ہیں ۔ اس وقت افغانستان ایک پرامن اور دنیا میں مہنگائی کے حوالے سے سب سے بہتر درجے کا ملک ہے جبکہ پاکستان مہنگائی کی شرح کے حساب سے اس وقت دنیا کا مہنگاترین ملک ہے لیکن کمال دیکھیں کہ ہم نے پھر بھی ان ساٹھ لاکھ سے زائد لوگوں کا بوجھ اٹھایا ہوا ہے ، ان کو فوراً ان کے ملک واپس بھیجنا چائیے ۔ اس وقت پاکستان میں بڑے بڑے کاروبار ان لوگوں کے ہیں پھر یہ کچھ ناعاقبت اندیش پاکستانیوں کے ساتھ مل کر سمگلنگ کا دھندا کرتے ہیں اور پاکستان کو اربوں روپے کا نقصان پہنچاتے ہیں ۔ پاکستان میں ہونے والی ساری دہشت گردی افغانستان سے ہوتی ہے ، پاکستان کے تمام دشمن وہاں موجود ہیں اور معلوم بھی ہیں لیکن ان کے خلاف وہاں کی حکومت کوئی کاروائی نہیں کرتی حالیہ دنوں میں نو مئی کے واقعات دیکھیں جس میں افغان باشندوں کی تفصیلات سامنے آرہی ہیں ۔ یہ ہماری داخلی سلامتی کے لیے خطرے کا باعث ہیں اس لیے کہ ان کے دلوں میں نفرت ہے خدانخواستہ کل اگر ان کو کوئی ایسا موقع ملتا ہے تو یہ ہمیں بہت زیادہ نقصان پہنچائیں گے ۔اس لیے گزشتہ ٤٥ برس کے اس ناکام تجربہ کو ختم کرکے ان کو اپنے ملک بھیجوانا چائیے تاکہ یہ بھی اپنے ملک کے استحکام میں کردار ادا کریں ، پاکستان دنیا کا عجیب ملک ہے جہاں اتنی بڑی تعدا د میں غیر ملکی رہائش پذیر ہیں اور وہ کوئی ٹیکس نہیں دیتے ان کے اخراجات ہم پر ٹیکس لگاکر وصول کیے جاتے ہیں ، اس پر بھی لوگ خوش نہیں ہیں بلکہ ہم سے نفرت کرتے ہیں ملک کے بیشتر تجارتی سلسلوں پر ان کا قبضہ ہے ،منشیات ، سمگلنگ ،اغوا، بھتہ خوری ،سٹریٹ کرائم ، منی لانڈرنگ،غیر اخلاقی سرگرمیاں ان کی ہیں اور اس کی قیمت ایک عام پاکستانی چکارہا ہے ۔ہنڈی اور حوالہ کا کاروبار کا سراغ لگائیں آپ حیران رہ جائیں گے کہ ان غیر قانونی پناہ گزینوں نے ملک میں کیا وبال مچایا ہوا ہے ۔ان افغانیوں کے یہاں ہونے کا فائدہ ان لوگوں کو ہے جنہوں ان کے ذریعہ اپنے غیر قانونی دھندے چلانے ہیں ،اپنی چودھراہٹ قائم کرنی ہے ، ان کے ذریعہ سمگلنگ کرنی ہے یا ان سے بھتہ لیکر انہیں کھلی چھوٹ دینی ہے ۔کیا یہ لوگ اتنے طاقتور ہیں کہ نظام ان کو کچھ نہیں کہہ سکتا یا پھر کہیں ایسا تو نہیں کہ نظام یہی لوگ ان کی مدد سے چلا رہے ہیں ۔اب پاکستان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے سوائے اس کے کہ ان سب کو ان کے ملک بھیجا جائے اور پاکستان کو اپنے مسائل پر توجہ مرکوز کرکے خود کو اس دلدل سے نکالناچاہئے ۔وار اکانومی کے بجائے زراعت ، صنعت، حرفت اور ٹیکنالوجی کی بنیاد پر اکانومی کو ترتیب دیا جائے تب ہی ہماری بقا ممکن ہے ۔

مزید پڑھیں:  کالی حوریں