مغموم ‘ اداس اور سبق آموز تاریخ

انسانی تاریخ کے مطالعہ میں میری ناقص رائے کے مطابق غم و حزن اور اداسی کا پہلو، خوشی و مسرت اور شادمانی سے زیادہ سامنے آتا ہے، ابھی انسانی بستیاں اس سرزمین پر پوری طرح بسی بھی نہیں تھیں کہ تاریخ ہمیں ہابیل و قابیل کا قصہ سنا دیتی ہے، قرآن کریم نے اس قصے کو مختصر مگر جس دلدوز انداز میں بیان کیا ہے، وہ صاحبان احساس و ادراک کے لئے آج بھی بہت کچھ سیکھنے کے لئے کافی ہے۔ ایک بھائی دوسرے بھائی کی جان لے لیتا ہے اور دوسرا بھائی (ہابیل) ذاتی دفاع میں کبھی اپنے بھائی (قابیل) پر ہاتھ نہ اٹھانے کا تہیہ کئے ہوئے ہے، کیا اس کے بعد بھی کوئی ایسا بھائی پیدا ہوا ہے۔ میں جب کسی سے سنتا ہوں کہ فلاں میرا بھائی ہے، تو میں تکلف برطرف کر کے پوچھ لیتا ہوں کہ کیسا بھائی؟ ہابیل جیسا کہ قابیل جیسا اسی طرح جب قصہ یوسف علیہ السلام سامنے آتا ہے تو انسان حیران رہ جاتا ہے کہ یا للعجب! ایسا بھی ہوتا ہے کہ یوسف جیسے حسین و معصوم بھائی کو اپنے بھائی اندھے کنوئیں میں بھی چھوڑ سکتے ہیں اور پھر جب خاتم النبییں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شروع ہونے والی اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرتا ہوں، تو مکی دور میں مشرکین کے اپنے ہی رسول کریمۖ اور ان کے صاف ستھرے صحابہ کرام پر مظالم کی انتہا کر دیتے ہیں یہاں تک کہ ایک دن سرکار دو عالمۖ اپنے محبوب ترین مولد و مونس شہر مکہ المکرمہ کو ڈبڈباتی آنکھوں کے ساتھ چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، پھر جب غزوات کی تاریخ نظروں کے سامنے آتی ہے، تو قریش کے نابغائوں کی عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے کہ کس طرح رحمت اللعالمینۖ جیسی ہستی کے در پے آزاد ہو کر اپنے آپ کو جہنم واصل کر دینے پر تل جاتے ہیں لیکن اس دوران معاہدہ مواخات سلیم الفطرت انسانوں کی ارواح کو سرشار کرنے لئے کافی رہ جاتا ہے۔
خاتم النبینۖکی رحلت کے بعد خلفائے راشدین میں سے تین اولوالعزم خلفاء جس طرح شہادت کا پیالہ نوش فرماتے ہیں تو ایک عام مسلمان کا دل ناقابل بیان دکھ درد سے بھر جاتا ہے، ان کے بعد پھر اسلامی تاریخ کے وہ صفحات جن میں بنی امیہ اور بنی عباس کے درمیان خونریز جنگیں ہوتی ہیں اور امت مسلمہ کا اتحاد اور اخوت پارہ پارہ ہوجاتی ہے۔ تو وہی ہابیل اور قابیل، حضرت یوسف علیہ السلام اور قریش مکہ کے قصے یاد آ جاتے ہیں لیکن بات یہاں کہاں ختم ہونے والی ہے، بنی امیہ کی حکومت کے لئے رہتی دنیا تک قابل سب و شتم واقعہ کربلا وقوع پذیر ہو جاتا ہے، اس واقعہ نے نہ صرف اس زمانے میں مسلمان امت کے درمیان نہ بھرنے والی دراڑیں ڈال دیں، بلکہ آج تک اس کے مغموم و اداس اثرات ہجری تقویم کے پہلے مہینے یعنی محرم الحرام میں تازہ ہو جاتے ہیں، اس مبارک مہینے کی عظمت و فضیلت اپنی جگہ لیکن اس میں دو ایسے جانکاہ واقعات ہوئے ہیں کہ آج بھی مسلمانوں کو رلا دیتے ہیں۔
حضرت عمر فاروق خلیفہ دوم کی شہادت مسلمانوں کئے عظیم سانحات میں شمار ہے، آپ وہ شخصیت ہیں جن کے بارے میں سرکار دو عالمۖ نے فرمایا ” میرے بعدکوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتے، آپ کے بعد حضرت عثمان غنی کی شہادت نے تو مسلم امہ کی ریڑھ کی ہڈی توڑ ڈالی اور پھر امت کو آج تک کبھی اتحاد نصیب نہ ہوسکا۔
محرم الحرام کی دوسری یاد جو اسلامی تاریخ کا سب سے زیادہ مظلوم و مغموم
اور حزیں واقعہ ہے، وہ مسلم بن عقیل اور پھر ما بعد حضرت امام حسین بن علی کی شہادت ہے، مسلم بن عقیل کوفہ میں عبید اللہ ابن زیاد کے آدمیوں کے ہاتھوں جس بے بسی و بے کسی کے عالم میں شہید کئے گئے، وہ ہماری تاریخ کے سیاہ ابواب میں سے ایک نہ بھولنے والا باب ہے، کوفہ میں آپ کے ہاتھ پر چار ہزار کوفیوں نے امام عالی مقام حضرت امام حسین کی خلافت کے لئے بیعت کی تھی لیکن جب ابن زیاد کوفہ کا گورنر بن کر پہنچا تو آپ بھرے کوفہ میں تنہا رہ گئے، ابن زیاد کے دربار میں جب پابہ جولاں لایا گیا تو آپ کی آنکھوں میں آنسو اور جسم زخموں سے چور تھا، آپ نے فرمایا، ”میں موت کے ڈر سے نہیں رو رہا بلکہ میں تو اس معصوم و بے خبر ہستی یعنی حضرت امام حسین کے لئے رو رہا ہوں کہ ان کو یہ خبر دینے والا کوئی نہیں کہ کوفہ نہ آنا، کیونکہ اہل کوفہ کی وفاداریاں خوف زیاد کے مارے تبدیل ہو چکی ہیں، مورخ نے سچ لکھا ہے الکوفی لا یوفی حتیٰ تاکل من کتوفی۔کوفی کبھی وفا نہ کرتا یہاں تک کہ آپ کے اپنے سانے کا گوشت بھی کھلا دیں” اور پھر جس بے دردی کے ساتھ ابن زیاد کی افواج نے اس زمانے کے سب سے عظیم متقی، بہادر اور سخی نواسہ رسولۖ کو شہید کیا ۔۔۔ وہ ہر سال محرم کے عاشورہ میں مسلمانان عالم کو خون کے آنسو رلانے کے لئے کافی ہے۔ شاید اس عظیم ظلم کے مکافات میں عراق کی سرزمین تاریخ میں بہت ہی خون ریز ٹھہری ہے۔ لیکن دوسری طرف ”کربلا” ایک ایسا لفظ اور ایسی جگہ ہے کہ اس کا کرب و بلا اپنی جگہ دلوں کو دہلا دینے والا واقعہ لیکن اس کے ساتھ قیامت تک امت مسلمہ کے لئے یہ سب بھی چھوڑ گیاکہ اسلام میں آمریت کی کوئی گنجائش نہیں اگر کہیں کسی اور عہد میں ایسی آمریت آئے جو فسطائیت پر مشتمل ہو تو عوام کے پاس مزاحمت کے لئے اسوہ حسینی موجود ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے انقلاب ایران کیلئے سب سے مضبوط قوت محرکہ یہی جذبہ حسنیت تھا۔ یزید جیسے آمر کے ہاتھ پر بیعت نہ کرنا کوئی آسان فیصلہ نہ تھا بلکہ یہ تو صاف شہادت الفت میں قدم رکھنا تھا اور پھر یہی ہوا کہ حضرت امام حسین نے اپنے آپ کو اپنے اہل و عیال سمیت عظیم قربانی کے لئے پیش فرمایا لیکن آمر کے ہاتھ میں بیعت کے لئے ہاتھ نہیں دیا اور سچ کہا ہے ہمارے اسلاف نے کہ
سرداد نہ داد دست دردست یزید
(سردے دیا لیکن بیعت کے لئے اپنا ہاتھ یزید کے ہاتھ میں نہیں دیا)
مشرقی پاکستان کا پاکستان سے الگ ہونا اسلامی تاریخ کا ایک عظیم سانحہ تھا دو بھائی اور برادر ملک کے افراد آپس میں خوب لڑے اور بھارت نے اس کا خوب فائدہ اٹھایا اور تاریخ میں نوے ہزار مسلمان قیدیوں کی انہونی ہوگئی ہماری تاریخ داغدار ہو گئی۔ اس سانحہ سے وہ ہندوقوم جو ذات پات کے سبب کبھی ایک قوم نہ تھی اور نہ ہے’ ایک ایسی قوم کے طور پر سامنے آئی کہ آج کا پاکستان ان کے سامنے بہت چھوٹا اور حقیر نظر آرہا ہے کہ ہم تین بلین ڈالر کے لئے ماں کا زیور بیچنے پر آگئے اور وہ بلینز آف بلینز ڈالر کے ذخائر کے مالک بنے ہیں۔ وہ خلاء میں چاند پر جانے کیلئے راکٹ بھیج چکے’ ہمارے سپارکو کے سربراہان کی فہرست پر نظر ڈالیں اور ان کے اسرو(Isro) کے سائنس دانوں پر نظر ڈال کرتقابل کیجئے لیکن دفع کریں مقابلے کرنا’ جب کسی میں کوئی خاص کام کرنے کی سکت ہی نہ ہو تو مقابلے کی کیا ضرورت؟ لیکن کم از کم اس بات کا تو خیال رکھیں جو ہمارے اپنے بس میں ہو۔ اہل فلسطین پر اسرائیلی مظالم کر رہے ہیں’ ہم کڑھتے ہیں۔ ہمیں تکلیف ہوتی ہے اور احتجاج کرتے ہیں اہل کشمیر پر بھارت شدید مظالم ڈھا رہا ہے ہم دنیا بھر میں آواز اٹھا رہے ہیں اور بھارت کی مذمت کرتے ہیں لیکن کیا مقام افسوس نہیں ہے کہ اب دنیا بالخصوص انسانی حقوق کی تنظیمیں پاکستان میں پاکستانیوں پر مظالم ڈھانے کے خلاف آوازیں اٹھا رہی ہیں، کیا یہ اس ماہ مقدس میں غم کے اوپر غم کے حالات طاری کرنے کے مترادف نہیں ہے، کیا ہم بحیثیت قوم اس محزون مہینہ میں اپنے قومی معاملات پر اپنے المناک تاریخی واقعات سے سبق اخذ کرتے ہوئے سدھارنے کی منصوبہ بندی کرنا پسند کریں گے؟۔

مزید پڑھیں:  مہنگائی میں کمی کے عوامل