مشرقیات

کھانا سامنے رکھا تھا دو دوست کھانے کے لئے ساتھ بیٹھے کھانا شروع ہوا تو دو ایک لقمے توڑتے ہی ایک دوست نے ہاتھ کھینچ لیا دوسرے نے پوچھا کیا بات ہے؟۔
جواب ملا۔۔۔ کیا کھائوں’ آپ کا کھانا تو روکھا پھیکا ہے، مہمان دوست نے نہ صرف کھانے کے بدمزہ ہونے کا گلہ کیا بلکہ یہ بھی کہا کہ ۔۔۔۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں اپنے گھرسے کھانا منگوا لوں۔
میزبان دوست نے فرمایا۔۔۔ نہیں یہ نامناسب ہوگا پھر کچھ رک کر فرمایا کہ ۔۔۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ کون کونسی غذائیں اچھی ہیں اور کون سی روکھی پھیکی اگر میں چاہوں تو بہتر سے بہتر غذا کھا سکتا ہوں لیکن میں ایسا نہیں کرتا۔
اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ کلام پاک میں فرمایا ہے کہ ۔۔ تم لوگ اپنی دنیاوی زندگی میں مگن ہو گئے ہو اور تم نے یہاں کی نعمتوں کو سب کچھ سمجھ لیا ہے۔ یہ بات تمہاری نیکیوں کو زائل کرنے والی ہے۔
یہ دو دوستوں کی گفتگو سینکڑوں برس پہلے کی ہے لیکن بعض حقیقتیں ایسی ہوتی ہیں جو ہر دور میں بار بار لوٹ کے ہمارے سامنے آتی ہیں کیونکہ یہ انسانی فطرت کی باتیں ہیں۔ آج بھی ہماری زندگیوں کایہی عالم ہے کہ ہم علم’ اصول ‘ اخلاق ہر قدر کو چھوڑ کے بس صرف ایک ہی بات کے ہو کے رہ گئے ہیں کہ کسی طرح اپنے معیار زندگی کو بڑھائیں، ویسے زندگی کے معیار کو بڑھانا بڑی اچھی بات ہے لیکن اس کے لئے محنت اور اخلاص کی ضرورت ہے، معیار زندگی کو بڑھانے کے لئے کوئی قانونی حدود توڑ دے’ جائز اور ناجائز کی تمیز مٹا دے تو یہ معیار بڑھانا نہیں گرانا ہے۔ منہ کے مزے کو بڑھا دینا بڑا خطرناک ہوتا ہے ایک بار یہ عادت پڑی اور آدمی اپنی حد سے اونچا اڑنے لگا جہاں یہ اڑان اونچی ہوئی وہاں مشکلات گھیرا ڈال لیتی ہیں پھر آدمی سیاہ و سفید کی تمیز کو بھلا دیتا ہے یہ جو مہمان اور میزبان دوست تھے ان میں میزبان حضرت عمر فاروق تھے جنہوں نے سادگی کی تلقین فرمائی تھی، حضرت عمر حجاز’ شام ‘ ایران ‘مصر اور افریقہ کے بہت بڑے حصہ پر حکومت کرتے تھے مگر سادگی میں بے مثال تھے، آذر بائیجان کے ایک گورنرتھے عتبہ بن فرقد انہیں ضروری احکام بھیجے تو خاص طور پر لکھا ۔۔ عیش و آرام کی زندگی سے پرہیز کرو’ ریشم کے کپڑے نہ بنائو’ اہل شرک کا لباس نہ پہنو انہی حضرت عتبہ بن فرقد نے ایک مرتبہ حلوے کے دو مرتبان حضرت عمر کو بھیجے امیر المومنین نے مرتبان کھلوا کر حلوا چکھا فرمایا یہ تو بہت مزیدار ہے پھر تحفہ لانے والے سے پوچھا کیا عتبہ کی فوج کے سب لوگ حلوا کھاتے ہیں؟ لانے والے نے کہا جی نہیں۔ فرمایا۔۔۔ حکومت اللہ کی امانت ہے یہ عیش و آرام شان اور تجمل کے لئے نہیں نہ دنیاوی لذتوں میں پھنس کر رہ جانے کے لئے ہے، پھر فوراً عتبہ بن فرقد کو لکھا یہ حلوا جو تم نے مجھے بھیجا ہے نہ تمہاری محنت سے ملا ہے نہ تمہارے ماں باپ کی چھوڑی ہوئی جائیداد کی آمدنی سے تیار ہوا ہے بلکہ تم نے اسے مسلمانوں کے خون پسینے کی کمائی سے بنایا ہے اس لئے مناسب یہ ہے کہ تم وہی کھائو جو تمہاری فوج کے لوگ کھاتے ہیں یا پھر جو غذا تم استعمال کرتے ہو اسے باقی مسلمانوں کو بھی دو۔
فاروق اعظم کے اس ارشاد کے بعد معلوم ہوا کہ اس سے ہٹ کر صاحبان اقتدار کا جو بھی عمل ہوگا کچھ زیادہ اچھا نہ ہوگا۔

مزید پڑھیں:  مہنگائی میں کمی کے عوامل