شندور میلہ لواری اور کوہاٹ ٹنلز

اپر چترال میں واقع بام دنیا شندور کے مس جنالی میں روایتی فری سٹائل پولو کے سالانہ مقابلوں کے موقع پر آنے والے سیاحوں کے باعث ماحولیاتی آلودگی کا ایسا جامع ا نداز میں جائزہ لی گئی تحریر بھیجی گئی ہے کہ میں متوجہ ہوئے بغیر نہ رہ سکی چترال سے میری دلی وابستگی کی اپنی ذاتی وجہ بھی ہے اس کے باوجود میں خواہش کے ابھی تک چترال نہیں جا سکی ہوں بہرحال جب بھی موقع ملا میں شندور میں برپا پررونق میلہ سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ وہ منفی پہلو بھی ضرور دیکھوں جسے پڑھ کر اور احساس کرکے مجھے دکھ ہوا کہ جہاں وی آئی پیز سے لے کر عوام تک ہر کوئی شوق سے جا کر لطف اندوز ہوتا ہے مگر وہاں کا ماحول وہاں موجود یاک اور بھیڑیوں نے تو خراب نہیں کیا وہاں چرنے مال مویشی اگر جڑی بوٹیاں کھا گئے تو ”کھیت” اجاڑا نہیں اور آئندہ سال پھر یہاں چرنے کے مواقع کو خطرے میں نہیں ڈالا مگر حضرت انسان کی قدموں کے نشانات پامیر کے بھیڑیوں سے ماحول کیلئے زیادہ خونخوار نظر آئے ۔ بہرحال قبل ازیں لواری ٹنل کا ذکر کریں جہاں سے گزر کر چترال آمد اور واپسی ہوتی ہے لواری ٹنل اور آس پاس کے جنگلات کا حسن بھی یقینا محسور کن ہوگا جہاں اگر اپنی مرضی سے ہفتے مہینے بھی گزارے جائیں تو کم ہو مگر دوران سفر اگر مجبوراً قید اور محصور ہونے کی نوبت آئے اور ساتھ میں خواتین اور بچے بھی ہوں گھر جانے یا پھر واپس منزل کا انتظار ہو تو پھر ذرا سی رکاوٹ اور بندش مشکلات کا باعث ہوتی ہے اسی طرح کی ایک مشکل سے واسطہ چترال کی سیاحت کرنے والوں اور مقامی افراد کو اکثر و بیشتر پڑتا ہے ۔مختصراً صورتحال یہ ہے کہ چترال کو ملک کے دیگر حصوں سے ملانے اور باسانی وسال بھر آمد ورفت کیلئے نو کلومیٹر سرنگ کی تعمیر تو مکمل ہوگئی گو کہ ابھی دھویں کے اخراج اور سرنگ میں تازہ ہوا کی ترسیل کا بھاری لاگت کا کام باقی ہے مگر بہرحال آمدورفت ہورہی ہے البتہ جب رش بڑھ جائے تو یکطرفہ ٹریفک چلائی جاتی ہے تاکہ ہوا کی کثافت میں اضافہ نہ ہو نیز دھویں کے باعث دکھائی دینے کا عمل متاثر نہ ہومرسلہ زیر نظر تصویر میں واضح طور پردیکھا جاسکتا ہے کہ یکطرفہ ٹریفک کے باعث گاڑیوں کی قطار لگی ہوئی ہے اس طرح کی صورتحال میں سیاحوں اور مسافروں کو سرنگ کے دونوں جانب گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے لگتا نہیں کہ حکومت اس پر کبھی توجہ دے گی۔سرنگ کی تکمیل کے بعد اس کے اندرونی نظام کی تعمیر وتنصیب پر توجہ کی ضرورت ہے تاکہ اس سہولت سے کماحقہ مستفید ہوا جا سکے۔لواری ٹنل سے شندور پہنچتے پہنچتے راستے کی مشکلات اور تارکول اکھاڑ کر پکی سڑک کو کچی اور گھڑوں کا شکار کرنے والی حکومت سے کیا شکوہ اس بارے اکثر و بیشتر مقامی افراد شکوہ کناں رہتے ہیں فی الوقت ہمیں تذکرہ کرنا ہے اس تحریر کا جس میں بڑے ہی احسن اور ماہرانہ انداز میں خلیل احمد نے صورتحال بیان کی ہے ۔وہ لکھتے ہیں کہ ہر سال دنیا بھر سے ہزاروں سیاح شندور چترال میں دنیا کے بلند ترین پولو گرانڈ میں فری سٹائل پولو دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ میگا ایونٹ صحت مند تفریح فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اس علاقے میں معاشی سرگرمیوں کو بھی فروغ دیتا ہے۔لیکن اس کے ماحولیاتی مضمرات پریشان کن ہیںچترال سطح سمندر سے تقریبا4000میٹر پر واقع جہاں شندور منفرد جنگلی حیات کا گھر ہے جیسے ہمالیائی بھورے ریچھ، تبتی بھیڑیا، لومڑی، گولڈن مارموٹ، برفانی چیتے، آئی بیکس، چکور، برفانی مرغ اور جنگلی پودوں کی بے شمار قسمیں اور نقل مکانی کرنے والے پرندوں کی گزر گاہ ہے شندور کا یہ3روزہ میلہ ان کی غیر معمولی غیر فطری سرگرمیوں کیساتھ ماحولیاتی نظام کے نازک جال کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا باعث بن رہا ہے۔
اس تہوار سے ہونے والی بڑی ماحولیاتی آلودگی کیکچھ تفصیل یہ ہے۔
1) )پانی کی آلودگی2) )شور کی آلودگی3) )فضائی آلودگی4) )مٹی کی آلودگی6) )روشنی کی آلودگی7))تھرمل آلودگی ایک اندازے کے مطابق اوسطاً 10ہزار سے زیادہ سیاح اس تقریب کو دیکھنے آتے ہیں اور وہ شندور کی تازہ پانی کی جھیل کو کپڑے، جیپوں، برتنوں، گھوڑوں، خود، بچ جانے والے کھانے وغیرہ کو صاف کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔جس کے نتیجے میں آبی حیوانات اور نباتات پر براہ راست اثر پڑتا ہے۔مزید یہ کہ اس جھیل سے نکلنے والے واٹر چینلز پانی کے غیر صحت مند معیار کی وجہ سے نیچے کی طرف آبادی کے زیر استعمال لوگوں کے مضر صحت بن جاتی ہے۔ہزاروں انسانوں کی طرف سے پیدا ہونے والے شور کی شدت، جنریٹروں، گاڑیوں، آلات موسیقی کے ساتھ آتش بازی کی آوازیں خطرے کی سطح سے اوپر ہیں۔ جو جنگلی حیات کے لیے خطرہ ہے ۔ گاڑیوں، جنریٹرز، کھانا پکانے کے لیے جلنے والی لکڑیوں اور الائو کے جلنے والے ہائیڈرو کاربن سے نکلنے والا دھواں CO2، CO، سلفر ہوا میں شامل ہوناماحول کے لیے براہ راست نقصان دہ ہے۔گاڑیوں سے اٹھنے والی گردوغبار نے مستوج سے سورلاسپور تک کے مکینوں کی زندگی اجیرن کردی ہوتی ہے ۔ ہزاروں خیموں سے نکلنے والی بڑی مصنوعی روشنیاں ان کی حیاتیاتی گھڑیوں میں خلل ڈال کر جنگلی حیات کی زندگیوں کو اذیت ناک بنا رہی ہیں۔ بڑی غیر فطری سرگرمیوں میں سے کافی مقدار میں تھرمل سرگرمی کی اطلاع ہے۔سب سے زیادہ خطرناک اور نظر آنے والی آلودگی مٹی کی آلودگی ہے۔شندور کے بعد لاپرواہ سیاحوں کی طرف سے چھوڑے گئے کچرے کے ڈھیر پورے علاقے میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ان آلودگیوں میں کھانے پینے کی اشیا، پلاسٹک کی بوتلیں، ریپر، انسانی فضلہ، بینرز، چارجرز ، طبی فضلہ وغیرہ شامل ہیں۔ان ٹھوس فضلات کو بایوڈیگریڈیبل ٹھوس فضلہ (BDSW) اور غیر بایوڈیگریڈیبل ٹھوس فضلہ میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
بی ڈی ایس ڈبلیو قدرتی طور پر وقت گزرنے کے ساتھ انحطاط پذیر ہے، لیکن پولی تھین کی طرح این بی ڈی ایس ڈبلیو10دہائیوں سے زائد عرصے تک مٹی میں رہتا ہے۔یہ ٹھوس فضلہ جب مویشی کھاتے ہیں تو ان کے لیے جان لیوا بن جاتے ہیں۔یہ ٹھوس فضلہ زمین کی خوبصورتی کو تباہ کر دیتے ہیں اور آبپاشی کے نالوں کی تباہی کا باعث بن جاتے ہیں۔بدقسمتی سے ماحولیاتی اثرات کا کبھی جائزہ نہیں لیا گیا اور اسے سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ اور یہ صرف میچ کے ہاف ٹائم کے دوران بینر اٹھانے کی رسم اور ایونٹ کے بعد چند فوٹو سیشن تک محدود رہتا۔تمام متعلقہ حکام کو مل کر ماہرین، مقامی اسٹیک ہولڈرز کیساتھ مل کر ایک جامع منصوبہ تیار کرنا چاہیے تاکہ اسے ماحول دوست ایونٹ بنایا جا سکے ۔ دوسری صورت میں مقامی لوگوں کے مطابق شندور کا تہوار وی آئی پیز کے لیے ، وی آئی پیز کی طرف سے اور وی آئی پیز سے ایک ایونٹ ہے اور ماحولیاتی اثرات کی لاگت معاشی فائدے سے کہیں زیادہ ہے ۔ لہٰذا اب وقت آگیا ہے کہ فطرت کا احترام کیا جائے۔ لواری ٹنل کا تذکرہ ہوا تو لگے ہاتھوں کوہاٹ ٹنل کا بھی تذکرہ ہوہمارے مراسلہ نگار کے مطابق کوہاٹ ٹنل میں جب سے دھماکہ سے تباہی ہوئی تھی سالوں گزر گئے اس کی تعمیر و مرمت اور تزئیں پر کسی نے بھی لاکھوں کروڑوں روپے روزانہ آمدن ہونے کے باوجود کسی نے توجہ نہیں دی دھماکے سے گڑھے پڑنے پر تھوڑی بہت اس کی مرمت کی گئی تھی مجھے یاد پڑتا ہے کہ یہ کام بھی سابق چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ جسٹس دوست محمد خان کے دبائو پر ہوا لیکن وہ بھی عارضی تھا جو اب پوری طرح دھا نہ کھولے گا گاڑیوں کو نگل لینے کیلئے تیار پڑا ہوتا ہے کیمروں کا نظام بھی درست نہیں کیا گیا اور ٹنل میں گاڑی خراب ہونے پر مرمت اورگاڑی کو کنارے لگانے کا بھی معقول انتظام نظر نہیں آتا سرنگ کے دونوں سروں پر سیکورٹی کا کوئی انتظام نہیں صوبے میں چند دنوں سے جو حالات رونما ہو رہے ہیں اس کے بعد کوہاٹ ٹنل کی مرمت اور اس کا تحفظ دونوں ہنگامی بنیادوں پر ہونی چاہئے تاکہ بوقت ضرورت تیز آمدورفت ممکن ہو اور ٹنل کی حفاظت یقینی ہوا آکسیجن فراہم کرنے والے اور دھوئیں کا اخراج کرنے والے نظام کی بھی اصلاح و مرمت پر توجہ کی ضرورت ہے ۔

مزید پڑھیں:  مہنگائی میں کمی کے عوامل