محصولات میں اضافے کا موقع ضائع

انٹر نیشنل مانیٹرنگ فنڈ (آئی ایم ایف) کی سخت شرائط سے متعلق قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ آئی ایم ایف کی سخت شرائط کی خبر درست نہیں ہے۔وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ زراعت اور ریئل اسٹیٹ پر ایک پیسے کا بھی مزید بوجھ نہیں ڈالا جائے گا۔ کوشش ہے ملک کو معاشی طور پر مستحکم کرکے چھوڑ کر جائیں۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی اجلاس میں عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف معاہدے کی دستاویزات پیش کر دیں۔انہوں نے کہا کہ بجٹ اجلاس میں کئے گئے وعدے کے مطابق آئی ایم ایف سے متعلق دستاویزات پارلیمان کے سامنے پیش کر رہا ہوں، تاکہ ارکان کو اس سے متعلق آگاہی حاصل ہو سکے، آئی ایم ایف معاہدے کی تفصیلات پیش کرنے کا مقصد شفافیت کو برقرار رکھنا ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ جب ہماری حکومت آئی تو ملک میں 14 ارب کے ذخائر موجود تھے، گزشتہ حکومت کی غلط پالیسیوں سے ملک کی معیشت کو نقصان ہوا اور حکومت کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، ہم نے ایسی پالیسی ترتیب دی ہے جس سے مہنگائی کو روکا جا سکے۔ اسحاق ڈار نے یہ بھی کہا کہ ٹیکس سے متعلق غلط خبروں کے باعث زراعت سے وابستہ لوگوں میں تشویش پھیلی۔ ریئل اسٹیٹ، زراعت اور کنسٹرکشن کے شعبوں پر کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا۔آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان معاہدے کی تفصیلات دوچار یوم قبل ہی خود آئی ایم ایف جاری کر چکا ہے جس میں سخت شرائط کے ساتھ ساتھ پابندیوں کی بھی بھرمارکا ذکر موجود ہے وزیرخزانہ کی دانست میں سخت شرائط کیا ہیں اور کیا نہیں اس سے کوئی فرق اس لئے نہیں پڑتا کہ سود سمیت قرض کی واپسی کے لئے ایسا کونسا شعبہ باقی رہ گیا ہے جس میں عوام پر بوجھ نہ ڈالاگیا ہو بجلی کا پیچاس روپے یونٹ اور گیس بلوں میں اچانک چار گنا اضافہ ہی کااگرحساب کیا جائے تو سختی کا بخوبی اندازہ ہوگا معیشت کی بحالی و استحکام اور مہنگائی کے حوالے سے حکومتی اقدامات کی حقیقت کوئی پوشیدہ امور نہیں خرابی کی تمام ذمہ داری سابقہ حکومت پرڈالنا اور اپنے اقدامات کو نجات دہندہ کے زمرے میں شمار کرنا عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے گزشتہ پانچ سالوں میں قرضوں میں ریکارڈ اضافہ کوئی راز کی بات نہیں حقیقت ہے وزیر خزانہ اور موجودہ حکومت آئی ایم ایف سے قرض لے کر عوام کو مزید زیر بار کرنے کو کامیابی متصور کرتے ہیں تو انہیں ایسا کرنے کا حق حاصل ہے لیکن عوام معروضی معاشی حالات کو مہنگائی کی کسوٹی پر ہی پرکھتے ہیں گزشتہ حکومت کی پالیسیوں کی اصلاح اور مہنگائی میں کمی لانے کے اقدامات دعوے ہی ہو سکتے ہیںمشکل امر یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی معاشی بحالی اور شرح نمو میں اضافہ کے حوالے سے سفارشات کو نہ پہلے درخور اعتناء سمجھا گیا اور نہ اب حالانکہ اگران کڑی شرائط پر عملدرآمد کی ٹھان لی جائے اور ان کی شرائط کے مطابق اقدامات کئے جائیں تو قرض کی رقم کا فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے بجائے اس کے کہ زراعت اور رئیل اسٹیٹ پر ٹیکس عائد کی جاتی وزیر خزانہ نے قومی اسمبلی کے الواداعی اجلاس میں اس کی تردید کومناسب سمجھا قبل ازیں توقع کی جارہی تھی کہ حکومت زراعت اور تعمیرات کے کم ٹیکس دینے والے شعبے پر ٹیکس عائد کرکے محصولات بڑھانے کا اقدام کرے گی لیکن بااثر عناصر کے ان شعبوں پر ٹیکس عائد کرنا تو درکنار ان شعبوں میں آمدن ظاہر کرکے ٹیکس سے بچنے والوں کا راستہ روکنے کے لئے ہی کوئی ٹھوس قدم اٹھایا جاتا تو بھی یہ قابل قبول عمل ہوتا۔ عالمی مالیاتی ادارے کی جانب سے بھی ان دو شعبوں میں ٹیکس عائد کرنے کی تجویز دی گئی تھی مگر اس کے باوجود ان شعبوں سے حسب سابق احتراز کا برتائو کیا گیا جس کی سیاسی و دیگر وجوہات کو سمجھنا اس لئے مشکل نہیں کہ ان شعبوں سے بااثر ترین افراد متعلق ہیں ہر حکومت میں انہی عناصر ہی کی چلتی ہے ۔زراعت اور تعمیرات کے شعبوں میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کو چھوٹ دے کر ان شعبوں میں سرمایہ کاری کی طرف راغب کرنے کی تو سمجھ آاتی ہے لیکن زراعت شروع سے ہی ٹیکس بارے شجر ممنوعہ رہا ہے جبکہ تعمیرات کے شعبے کو مختلف بہانوں سے چھوٹ ہی ملتی رہی ہے اس شعبے کو گزشتہ حکومت نے بھی خوب نوازا مگر جو توقعات وابستہ کی گئیں ان کا حصول پھر بھی ممکن نہ ہوسکا۔ ٹیکس پر چھوٹ کے باعث زرعی شعبہ جس طرح ٹیکس چوری کا آسان شعبہ بن گیا ہے وہ ملکی محصولات میں اضافہ کی راہ سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔ زراعت کو ٹیکس سے مستثنیٰ کرنے سے معیشت کے دیگر شعبوں پر بہت زیادہ بوجھ پڑ رہا ہے ۔ 1997ء میں حکومت نے زرعی آمدنی پر ٹیکس لگانے کے لئے اقدامات پر توجہ دی تھی مگر چوتھائی صدی گزرنے کے باوجود بھی اس پر پیش رفت نہ ہونے سے یہ اندازہ لگانامشکل نہیں کہ مزید نصف صدی بھی شاید ایسے ہی گزرے ۔ملکی معاشی حالات زیادہ سے زیادہ محصولات اور تمام شعبوں پر ٹیکس عاید کرنے کا متقاضی ہے زراعت اور تعمیرات کے شعبے سے معقول حد تک محصولات کا حصول ممکن ہوسکتا ہے بشرطیکہ حکومتیں دبائو اور مفادات کی بجائے ملکی مفاد کا سوچیں او ان شعبوں سے بھی محصولات اکٹھی ہوں۔

مزید پڑھیں:  من حیث القوم بھکاری