اروندکجریوال کی ریوڑیاں اور ہمارے بتاشے

اروندکجریوال کی سات ریوڑیوں کے بعد ذرا اپنے ہاں کے بتاشوں کا تذکرہ بھی ہو جائے بلکہ اپنے گزشتہ کالم مطبوعہ ہفتہ 22 جولائی کے ساتھ تقابلی جائزہ ہی لے لیں اور فلم ودھاتاکے مشہور گانے کے مقابلے میں ایک پنجابی گیت کا ذکر بھی کرلیتے ہیں جس کے بول کچھ یوں ہیں کہ
میں چھج بتاشے ونڈاں
اج قیدی کرلیا ماہی نوں
محولہ پنجابی گیت میں بیان کردہ ”ماہی” ویسے تو بہت ہی بے چارہ واقع ہوا ہے جو گزشتہ 75 برس سے ”قید” ہے اور جس کی قید کی مدت ختم ہونے ہی میں نہیں آرہی ہے، یعنی جس طرح نئی دہلی کے حکمران اروند کجریوال نے سات ریوڑیاں عوام میں بانٹنے کا اہتمام کیا ہے اسی طرح پاکستان میں ”عوام” کو تقسیم کے بعد ”ماہی” بناکر قید بامشقت نسلاً بعد نسلاً میں مبتلا کردیا گیا ہے اور مختلف ادوار میں ان کو مختلف اقسام کے لالی پاپ تھما کر ٹرک کی بتی کے پیچھے لگاتے ہوئے اب تک دوڑایا جا رہا ہے جبکہ خود ”رہنمایان ملت” ان خیالات کی آبیاری کر رہے ہیں یعنی بقول مرزا محمود سرحدی
حلف اٹھا لینے کے فوراً بعد ہر تازہ وزیر
قائداعظم کے مرقد پر بھی جاتا ہے ضرور
اور وہاں جاکر یہ کہتا ہے وہ ان کی روح سے
میرے ہاتھوں قوم اچھا دن نہ دیکھے گی حضور
ماضی میں ایک سیاسی رہنماء کے حوالے سے یہ خبریں گردش میں تھیں کہ انہوں نے جو اعلیٰ نسل کے گھوڑے پال رکھے ہیں ان کی پرداخت کیلئے ان گھوڑوں کو سیب وغیرہ کے مربے کھلائے جاتے ہیں اب ان اطلاعات میں کس قدر صداقت تھی اس حوالے سے ”تحقیقی جرنلزم” کے صفحات پر ثبوتوں کے ساتھ کچھ بھی نہیں مل رہا تاہم وہ جو انگریزی میں کہا جاتا ہے کہ ”فرام دی ہارسز مائوتھ” تو تازہ ترین خبر کے مطابق سابق وفاقی (بار بار کی) وزیر و مشیر محترمہ ڈاکٹر فردوش عاشق اعوان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ انہیں شادی پر دو سو تولے سونا ملا تھا جبکہ ان کی بہن کی شادی پر بھینسوں کو بھی سونے کے کنگن پہنائے گئے تھے۔ محترمہ نے البتہ یہ نہیں بتایا کہ بھینسوں کو کنگن پہنانے کے بعد ان کے آگے بین بھی بجائی گئی تھی، ویسے اگر بھینسوں کو کنگن پہنانے کی بجائے ان کی حویلی کے اصطبل کے گھوڑوں کو سونے کے جھانجر پہنائے جاتے تو ان گھوڑوں کو رقص کرتے ہوئے جھانجروں کی ”جھن جھن” سے لوگ تو لطف اندوز ہوتے کہ پنجاب میں گھوڑوں کے رقص کا میلوں ٹھیلوں میں رواج عام ہے اور خصوصاً غیر ملکی مہمانوں کے آگے تو ان ”ماہر رقاص گھوڑوں” سے رقص کرواکر ڈھیروں داد وصول کی جاتی ہے اس پر ایک اور پاکستانی فلمی نغمہ یاد آگیا ہے۔
رقص میں ہے سارا جہاں
جھوم اٹھا آسماں
آئے گا وہ میرا محبوبہ
بات اروندکجریوال کی سات ریوڑیوں سے چلی تھی جس کے ساتھ اپنے ہاں کے سیاسی بتاشوں کا تقابلی جائزہ مقصود تھا۔ سو مزید وقت ضائع کئے بغیر سیدھے سادھے موضوع پرآتے ہیں اور پہلا بتاشا تھا نئی دہلی کے عوام کو مفت کی بجلی کی فراہمی اور جب ہم نے اس ریوڑی کو اپنے ہاں کے بتاشوں کے تناظر میں پرکھا تو خدا کا شکر ادا کیا کہ ہم تو بہت عرصے سے واپڈا والوں میں ریوڑیاں ہی نہیں بتاشے مفت میں بانٹ رہے ہیں اور باوجود یکہ گزشتہ کئی برس سے مختلف حکومتیں بجلی کے نرخوں میں بہ امر مجبوری (آئی ایم ایف کی خوشنودی کیلئے) مسلسل اضافہ کرکے عوام پر کبھی فی یونٹ اضافہ، کبھی پیک آورز کے نام پر استحصال اور اب سلیب کے نام پر زیادتیوں کے پہاڑ توڑ رہی ہیں لیکن واپڈا ملامین (سکیل ایک تا سکیل 22) کو بتاشے بانٹنے میں کوئی کوتاہی نہیں کر رہی ہیں جبکہ چوری شدہ اور لائن لاسز کے نام پر تمام نقصان ”آپ عوام پارٹی” والے عوام سے پورا کرلیتے ہیں۔ دوسری ریوڑی شاندار سکول سسٹم کے تحت امیروں اور غریبوں کے بچوں کو یکساں تعلیم دلوا کر، اگر دیکھا جائے تو اروند کجریوال نے ہندوتوا کے زریں اصول یعنی ذات پات کی تمیز کے پرخچے اڑا دیئے ہیں، اگرچہ ہمارے ہاں مذہبی نکتہ نظر سے ذات پات کی تمیز کو خطبۂ حج الوداع کے موقع پر ہادی برحق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پائوں تلے روند کر کالے گورے، امیر غریب کے درمیان تمیز کو ختم کرنے کا حکم صادر فرمایا تھا مگر ۔۔۔ چلیں چھوڑیں اس قسم کے تذکروں سے بہت سے لوگوں کے ماتھوں پر شکنیں پڑ جاتی ہیں اس لئے بیکن ہائوس سے لے کر سرکاری سکولوں کے درمیان طبقاتی تعلیم کے کئی رواج رائج ہیں، تیسری ریوڑی علاج سب کیلئے وہ بھی یکساں حالانکہ ہمارے ہاں بھی علاج مفت ضرور ہے مگر ٹھیکیداری سسٹم کے تحت اور صحت انشورنس سسٹم کے تحت من پسند ہسپتالوں کو جس طرح مبینہ لوٹ مار کی کھلم کھلا اجازت دی گئی ہے اس پر اروندکجریوال نے سوچا ہی نہیں ہوگا۔ ورنہ جس طرح ایک مشہور ہسپتال میں ایک خطرناک بیماری کے ”مفت علاج” کے نام پر اندرون و بیرون ملک سے اربوں کھربوں کے فنڈز خیرات کے نام پر اکٹھے کرکے مبینہ منی لانڈرنگ کے الزامات کے تحت بیرون ملک جائیدادوں کی خریداری کی گئی ہے جبکہ اسی ہسپتال کے نام پر لیبارٹری کا ہستال سے کوئی تعلق نہیں اور وہ خالصتاً ذاتی مفاد کا معاملہ ہے اور اب یہ باتیں بھی عام ہیں کہ محولہ ہسپتال میں ملٹی نیشنل ادویہ ساز کمپنیوں کے ٹیکے اور دوائیں متعلقہ ہسپتال میں عام لوگوں پر آزما کر ان کے نتائج دیکھے جاتے ہیں کیونکہ دیگر ممالک میں عام مریضوں پر ان ادویات کے تجربات کی اجازت وہاں کوئی بھی نہیں دیتا، چوتھی ریوڑی صاف پانی کی فراہمی ہے جس کا تقابلی جائزہ ہمارے ہاں ٹیوب ویلوں سے فراہم کرنے والے ”صاف” پانی کے برعکس اگر منرل واٹر کے نام پر بوتلوں میں بند ناقص کوالٹی کے پانی کی خبروں سے کیا جائے تو عقل دنگ رہ جاتی ہے، پانچویں ریوڑی بسوں کے اندر خواتین کے بلا ٹکٹ سفر کی ہے جبکہ ہمارے ہاں بسوں کے بدتمیز عملے کے ہاتھوں خواتین اور بزرگوں کی بے عزتی کے بتاشوں سے کریں تو الحفیظ و الامان، چھٹی ریوڑی ہر گھر کے بزرگ خواتین و حضرات کی مذہبی مقامات کی سرکاری یاترا کی ہے، ہمارے ہاں اس حوالے سے بھی حقائق ہوشرباء ہیں جن کی تفصیل ہر کوئی بخوبی جانتا ہے اور ساتویں ریوڑی 12 لاکھ افراد کو سرکاری نوکریاں دینے کے بعد مزید بے روزگاروں کیلئے ملازمتوں کا انتظام ہے جبکہ ہمارے ہاں ملازمتوں کے بتاشے صرف موثر طبقات کے قبضے میں دینے کے بعد ”کوٹہ سسٹم” کے نام پر عام لوگوں کا استحصال اور ملازمتوں کی خرید و فروخت ہی ہے جس پر مرزا محمود سرحدی نے بھی کہا تھا۔
آذرا قوم کی خدمت بھی کریں
جمع اپنے لئے دولت بھی کریں

مزید پڑھیں:  ویج مجسٹریٹ کی تعیناتی