جس تن لاگے وہی جانے

وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کے مطابق9 اگست کی شب قومی اسمبلی تحلیل کردی جائے گی، وفاقی وزیر احسن اقبال نے گزشتہ روز پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ دو دن پہلے اسمبلیاں توڑنے میں کوئی قباحت نہیں، الیکشن کے لئے90 دن ہوں گے تو ہمارے پاس انتخابی مہم چلانے کیلئے مناسب وقت ہوگا۔ مقررہ آئینی مدت سے دو تین قبل قومی اور دو صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل میں یقیناً کوئی قانون رکاوٹ نہیں ہے بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ حکمران اتحاد انتخابی مہم کے لئے زائد وقت کا خواہش مند ہے جس کا اظہار وفاقی وزیر اور مسلم لیگ (ن)کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے بھی کیا۔ حکومت کی آئینی مدت مکمل ہونے کے آخری دنوں میں مختلف شعبوں کے حوالے سے بڑی قانون سازی بھی تیزی سے جاری ہے، گزشتہ روز نگران حکومت کو بااختیار بنانے کے بل کے ساتھ انتخابی اصلاحات کے بل الیکشن ایکٹ بھی کثرت رائے سے منظور کرلئے گئے، الیکشن ایکٹ کی بعض شقوں پر پیپلزپارٹی، پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کے سینیٹرز نے اعتراضات بھی کئے۔ نگران وزیراعظم کو منتخب وزیراعظم کے مساوی اختیارات دینے کی تجویز مسترد کردی گئی، وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے وضاحت کی کہ نگران حکومت کو صرف ستمبر میں ورلڈ بینک سے معاہدہ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے، نئے عالمی معاہدوں کا نہیں پہلے سے طے شدہ منصوبوں اور معاہدوں کو ہی آگے بڑھایا جاسکے گا۔ پی ٹی آئی کے سینیٹر سید علی ظفر کا کہنا ہے کہ الیکشن ایکٹ اور نگران حکومت کے اختیارات کے حوالے سے ترامیم ناکافی ہیں سپریم انہیں کورٹ مسترد کردے گی، یہ موقف اس لئے حیران کن ہے کہ سید علی ظفر ایک طرف تو یہ کہہ رہے ہیں کہ کچھ ترامیم نے بلز کو بہتر بنایا، دوسری جانب ملک کی سب سے بڑی عدالت کے فیصلے کے حوالے سے قبل از وقت دعویٰ کرتے دکھائی دیئے، معاملہ ابھی سپریم کورٹ میں گیا ہی نہیں لیکن انہوں نے فیصلے کے بارے میں پیشگی بتا دیا، بادی النظر میں یہی لگتا ہے کہ تحریک انصاف نگران حکومت کے اختیارات اور الیکشن ایکٹ بل کو عدالت میں چیلنج کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، اصولی طور پر یہ پی ٹی آئی کا قانونی حق ہے لیکن جس طرح عدالت کے فیصلے کے بارے میں پیشین گوئی کی گئی، اس سے تحفظات کا جنم لینا نادرست ہرگز نہیں۔ البتہ وزیر قانون اور دوسرے ذمہ داروں کو اس امر کی وضاحت ضرور کرنی چاہئے کہ نگران حکومت کو نجکاری کا اختیار دینے کی تجویز کس کی تھی نیز یہ کہ کیا ماضی میں نگران حکومتوں کے پاس اس طرح کے اختیارات تھے۔ تحریک انصاف کے بعض سینیٹرز اور رہنمائوں نے الیکشن اصلاحات بل پر جو اعتراضات اٹھائے ہیں وہ ان کا قانونی حق تو ہے لیکن انہیں اس سوال کا جواب ضرور دینا چاہئے کہ پی ٹی آئی کے برسراقتدار آنے کے بعد انتخابی اصلاحات کے لئے قائم پارلیمانی کمیٹی اس کے پونے چار برسوں کے دور اقتدار میں اپنا کام مکمل کیوں نہیں کرپائی حالانکہ پچھلے ایک ڈیڑھ عشرے میں پی ٹی آئی کی سیاست انتخابی اصلاحات اور بلاامتیاز احتساب کی ضرورت اجاگر کرنے کے گرد ہی گھومتی رہی، ستم ظریفی یہی ہے کہ پی ٹی آئی اپنے دور میں نہ تو انتخابی اصلاحات کر پائی نہ ہی بلاامتیاز احتساب کے لئے قانون سازی، البتہ اس کے مخالفین اس عرصہ میں یہ تواتر کے ساتھ دعویٰ کرتے دکھائی دیئے کہ بلاامتیاز احتساب کے قانون سے اس لئے آنکھیں چرائی جا رہی ہیں کہ پی ٹی آئی کے رہنمائوں کو مالم جبہ، پشاور میٹرو، ہیلی کاپٹر کے استعمال اور اس طرح کے دوسرے کیسوں سے تحفظ فراہم کروایا جاسکے۔ ان دعوئوں کو بالفرض مخالفین کا پروپیگنڈہ بھی مان لیا جائے تو تب بھی یہ سوال اہم ہے کہ جس جماعت کی سیاست ہی تبدیلی، انتخابی اصلاحات اور بلاامتیاز احتساب کے وعدوں سے عبارت تھی اس نے اپنے پونے چار برس کے دور اقتدار میں اس حوالے سے کیا اقدامات اٹھائے؟ انتخابی اصلاحات کے لئے منظور شدہ بل کے مطابق الیکشن ٹربیونلز میں صرف حاضر سروس ججز ہی تعینات ہوں گے یہ یقیناً مثبت فیصلہ ہے۔ جہاں تک اس امر کا تعلق ہے کہ قومی اور دو صوبائی اسمبلیاں مقررہ آئینی مدت سے دو تین دن قبل تحلیل کردی جائیں گی جیسا کہ وزیر داخلہ نے بھی گزشتہ روز کہا تو اس کا بظاہر یہی مقصد لگتا ہے کہ نگران دور90 دن کے لئے ہو۔ مقررہ وقت پر اسمبلیوں کی تحلیل کی صورت میں یہ عرصہ 60 دن کا ہوگا، حکمران اتحاد کو یہ امر بطور خاص پیش نظر رکھنا ہوگا کہ انتخابی عمل مقررہ وقت پر شروع اور اختتام پذیر ہو۔ گو اس امر کے خدشات موجود ہیں کہ بعض اور خصوصاً مردم شماری کے نتائج کے اجراء سے گریز اور نئی حلقہ بندیوں کے نہ ہونے کو جواز بناکر کچھ سیاسی جماعتیں عدالتوں سے رجوع کرسکتی ہیں، اس خدشے نے حقیقت کا روپ دھارا تو انتخابی عمل کے التوا کا خدشہ ہے یہی وہ نکتہ ہے جو بہرصورت مدنظر رکھا جانا چاہئے، خصوصاً اس لئے کہ نگران حکومت کا مقررہ آئینی مدت سے زائد عرصہ کے لئے برقرار رہنا خلاف آئین ہوگا، قبل ازیں بھی دو صوبائی نگران حکومتوں کا مقررہ مدت سے زائد عرصہ میں موجود ہونا اور دو صوبوں کے معاملات چلانا نگران حکومت کیلئے موجود قانون سے صریحاً انحراف ہے۔ یہی روش اگر مستقبل میں دہرائی گئی تو آئینی بحران کے ساتھ ساتھ سیاسی عدم استحکام کے سنگین تر ہونے کے خطرات ہیں۔ اس صورت میں انارکی کا دروازہ کھلے گا جس کا متحمل نہیں ہوا جاسکتا۔ عوام الناس کے مسائل پہلے ہی بہت گھمبیر ہیں معاشی عدم توازن اور سیاسی عدم استحکام کی کوکھوں سے جنم لینے والی مشکلات نے لوگوں کی زندگی اجیرن کر دی ہے رہی سہی کسر بجلی کے فی یونٹ نرخوں میں حالیہ اضافے نے پوری کردی، موجودہ حکومت کے سوا برس کے دور میں بجلی کے بنیادی ٹیرف میں18روپے39 پیسے فی یونٹ اضافہ کیا گیا۔ فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کا بوجھ اور مختلف اقسام کے ٹیکسوں کی بھرمار ظلم کی داستان کے مصداق ہی ہے اسی طرح حکومت نے دو تین روز قبل ادویات کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری دی۔ وزیراعظم اور دیگر حکومتی زعماء اپنی حکومت کے ان سخت فیصلوں کا جن سے عوام پر ناقابل برداشت بوجھ پڑا یہ کہہ کر دفاع کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ پچھلی حکومت کی پیدا کردہ صورتحال سے نجات اور ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لئے اس طرح کے سخت فیصلے کرنا پڑے۔ گزشتہ سوا برس کے دوران متعدد بار حکومتی زعماء یہ کہتے دکھائی دیئے کہ ہم نے ملک کی خاطر اپنی سیاست کو دائو پر لگایا، عین ممکن ہے کہ یہ باتیں درست ہوں لیکن اس عرصے میں عوام پر جو بیتی اس پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ جس تن لاگے وہ تن جانے۔ بدقسمتی سے اس عرصہ میں سیاسی اختلافات نے ذاتی نفرتوں او عداوتوں کی صورت اختیار کی یہ منفی رویئے قبل ازیں بھی تھے لیکن پچھلے کچھ عرصہ میں بہتری آنے کی بجائے بگاڑ مزید بڑھا۔ ستم بالائے ستم بعض حکومتی زعماء بالخصوص خواجہ آصف کا سینیٹ میں ایک حالیہ خطاب ہے جس میں سیاسی مخالفین کی خواتین کے بارے میں سوقیانہ الفاظ استعمال کئے گئے۔ اندریں حالات ہی یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ انتخابی عمل کے آغاز کے ساتھ ہی اس پولرائزیشن میں مزید اضافہ ہوا تو اس کے نتائج سبھی کو بھگتنا ہوں گے۔ ہم امید ہی کرسکتے ہیں کہ منفی خدشات درست ثابت نہ ہوں اور تمام امور خوش اسلوبی کے ساتھ مقررہ وقت میں مکمل کرلئے جائیں۔

مزید پڑھیں:  حد ہوا کرتی ہے ہر چیز کی اے بندہ نواز