حقا کہ بنائے لاالہ ہست حسین

جب سے کربلا کا سانحہ رونما ہوا ہے تب سے آج تک جہاں محکوم قوموں نے اس سے درس لیا ہے بلکہ ادب کے حوالے سے اسے ایک استعارے کی حیثیت حاصل ہوچکی ہے، فارسی’ اردو، پنجابی’ سندھی’ پشتو’ بلوچی اور برصغیر کی دیگر زبانوں کے ادب پر اس سانحے کے گہرے اثرات محسوس کئے جا سکتے ہیں، خصوصاً میر انیس اور مرزا دبیر نے اپنے مرثیوں کے ذریعے اس واقعہ کو زندہ جاوید کر دیا ہے، ان دونوں شعرائے کرام کی مراثی کے اندر ایسے لاتعداد مصرعے زندہ جاوید ادب کی شکل میں قیامت تک اپنی اہمیت کا احساس دلاتے رہیں گے میرانیس کا یہ شعر تو زبان زد عام ہے کہ
کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے
رستم کا جگر زیر کفن کانپ رہا ہے
سانحہ کربلا کو موضوع سخن بنانے میں صرف شعرائے کرام ہی پیش پیش نہیں رہے بلکہ یہ سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے بلکہ صوفیائے کرام نے بھی اس واقعہ کو اپنی فکر کی جولانیوں سے جلا بخشنے کی سعی کی، مثلاًامام عالی مقام حضرت سیدنا امام حسین کے کردار کی اہمیت کو اجاگر کرنے کیلئے یہ قطعہ صدیوں سے زبان زدعام ہے
شاہ ہست حسین پادشاہ ہست حسین
دین ہست حسین دین پناہ ہست حسین
سرداد نہ داد دست در دست یزید
حقا کہ بنائے لاالہ ہست حسین
جوش ملیح آبادی نے شہدائے کربلا کے کردار پر تبصرہ کرتے ہوئے امام عالی مقام حضرت سیدنا امام حسین کی نسبت سے کیا خوبصورت بات کی ہے کہ
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین
جوش کے اس دعوے کا ثبوت برصغیر میں آباد دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی امام عالی مقام حضرت سیدنا امام حسین کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اپنے اشعار میں اس قسم کے دعوے کرنا جو ایک ہندو شاعر راج کمار نے کیا ہے کہ
اس قدر رویا میں سن کر داستان کربلا
میں تو ہندو ہی رہا آنکھیں حسینی ہوگئیں
شاعر مشرق حضرت علامہ محمد اقبال بھی اس حوالے سے کسی سے پیچھے نہیں رہے اور انہوں نے سانحہ کربلا کو حضرت ابراہیم اور ان کے فرزند دلبند حضرت اسماعیل کے واقعے سے جوڑتے ہوئے داستان حرم کو صدیوں کے سفر کے باوصف ابتداء اور انتہا جیسے الفاظ کے تحت باندھ کر کتنی خوبصورتی سے دو مصرعوں میں یکجا کردیا اور کہا
غریب و سادہ و رنگین ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسین ابتداء ہے اسماعیل
مقبول شاعر جون ایلیا نے سانحہ کربلا پر اپنے انداز سے قلم اٹھایا ہے اور کربلا کے مظلوم شہداء کو یاد کرتے ہوئے کہا ہے کہ
بلا کے غم اٹھائے جا رہے ہیں
جفا کے تیر کھائے جا رہے ہیں
بٹھاتے تھے نبیۖ کاندھوں پر جن کو
وہ نیزوں سے گرائے جا رہے ہیں
شہدائے کربلا کی عظیم قرانی سے متاثر ہوکر عاضی کرنالی دعائیہ انداز میں یوں رقمطراز ہوتے ہیں کہ
ہر ذرۂ صحرا کو لہو رنگ بنا دے
مظلوم مسافر تجھے اللہ جزا دے
ہاں مصحف اخلاق کا سرنامہ ہے وہ ذات
جو تیر ستم کھاکے ستمگر کو دعادے!
ہوتجھ کو اگر سات سمندر پہ تصرف
اے آنکھ انہیں اشک کی صورت میں بہادے
خیبرپختونخوا کے موجودہ دور کے مقبول شاعر استاد ادب پروفیسر ڈاکٹر نذیر تبسم اپنی نظم شہدائے کربلا میں یوں رقمطراز ہیں
عظیم چہرے
کمال چہرے
وہ دشت امکاں کی کھوج میں
لازوال چہرے
جو روشنی کی نوید بن کر
کرن کرن میں دمک رہے ہیں
جبین صبح ابد پہ اک آفتاب بن کر
چمک رہے ہیں
جبین صبح ابد پہ اک آفتاب بن کر
چمک رہے ہیں
اور کالم کے آخر میں آج سے تقریباً 9 سال قبل یعنی 28 اکتوبر 2014ء کو سلام بر امام عالی مقام حضرت سیدنا امام حسین راقم نے شہداء کربلا کے حضور پیش کرتے ہوئے عرض کیا تھا
تیرا کلام روشنی’ تیرا پیام روشنی
ابن علی المرتضیٰ ہے تیرا نام روشنی
اک پیاس کا ہنگام ہے پانی سے خالی جام ہے
پیاسوں کا عزم و حوصلہ ہے اذن عام روشنی
سجدے میں دی جاں شاہ نے ہے انتہائے عشق یہ
تیرا سجود روشنی’ تیرا قیام روشنی
ہے روشنی کی ابتداء ہے روشنی کی انتہا
فکر امام روشنی جہد امام روشنی
مدنظر تھی شاہ کے فکر امام الانبیاۖ
قول و عمل میں یوں رہی پیش امام روشنی

مزید پڑھیں:  حد ہوا کرتی ہے ہر چیز کی اے بندہ نواز