کیا یہ تجویز قابل عمل ہے؟

دیرلویہ جرگہ نے ملاکنڈ میں ہر قسم کے ٹیکسز کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئین کے تحت ملاکنڈ ٹیکس فری زون ہے لہٰذا حکومت سو سال کیلئے ملاکنڈ کو ٹیکسز سے استثنیٰ دے، جرگہ نے مطالبہ کیا ہے کہ مقامی معدنیات سے پابندی اٹھانے’ جنگلات پر عوام کی ملکیت برقرار رکھنے سمیت تمام بجلی منصوبوں سے ملاکنڈ کو رعایتی نرخوں پر بجلی فراہم کی جائے، لویہ جرگہ نے کہا ہے کہ ملاکنڈ سیلاب’ زلزلے اور دہشتگردی سے شدید متاثر ہوا ہے لہٰذا حکومت اسے سو سال کیلئے ٹیکس فری زون قرار دے، جرگہ شرکاء نے مطالبہ کیا کہ سیاحتی فروغ کیلئے اقدامات سمیت ملاکنڈ کے عوام کیلئے روزگار کے مواقع فراہم کئے جائیں، جہاں تک لویہ جرگہ کے دیگر مطالبات کا تعلق ہے یعنی معدنیات سے پابندی اٹھانے جنگلات پر عوام کی ملکیت برقرار رکھنے اور بجلی منصوبوں سے علاقے کے عوام کو رعایتی نرخوں پر بجلی کی فراہمی تو ان مطالبات کو متعلقہ اداروں کے ساتھ ملاکنڈ کے عوامی نمائندوں کے ساتھ گفت و شنید کے ذریعے حل کرنے میں کوئی امر مانع نہیں ہونا چاہئے کہ عالمی قوانین کے تحت ان تمام شعبوں میں متعلقہ علاقوں کے عوام کو ہر جگہ مقررہ سہولیات فراہم کی جاتی ہیں تاہم اگر غور سے دیکھا جائے تو محولہ شعبوںکو جس طرح نہ صرف علاقے کے بااثر افراد نے دیگر عوامل کے ساتھ مل کر ماضی میں جس طرح لوٹ کھسوٹ کا نشانہ بنایا اس کے بعد کیا اس قسم کے مطالبات کو درخور اعتناء سمجھا جاسکتاہے؟ سوات کی زمرد کی کانوں کا گزشتہ کئی دہائیوں سے جس طرح استحصال کیا گیا اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے، اسی طرح جنگلات خواہ ملاکنڈ کے علاقوں کے ہوں یا پھر ضلع ہزارہ کے قیمتی جنگلات ہوں ان کو ہر جگہ جنگلات مافیا نے جس بے دردی سے لوٹا اس سے نہ صرف ان علاقوں کے عوام کا استحصال ہوا بلکہ ماحولیات کی تباہی اور بربادی کا سامان کیا گیا۔ اس لوٹ مار میں صرف ٹھیکیدار ہی شریک نہیں تھے محکمہ جنگلات کے افسروں سے لے کر رکھوالی کرنے والے بھی شامل تھے جبکہ بن بلائے مہمانوں یعنی افغان مہاجرین نے بھی اس میں بھرپور حصہ ڈالا ، لاکھوں ایکڑ پر کھڑے جنگلات کی بے دریغ کٹائی سے ماحول کی بربادی کی وجہ سے گلیشیئر پگھلنے’ بارشوں اور سیلاب سے زمینوں کی کٹائی نے تباہی پھیر دی، اس کے بعد اب ایک صدی تک علاقے کو ٹیکس فری زون کو آئین کا تقاضا قرار دینے والوں سے گزارش ہے کہ وہ آئین کی اس شق کا حوالہ دے کر عوام کو سمجھائیں اگر ان کی بات درست ہے تو پھر سو سال تک ڈویژن کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دینے کی حمایت عوامی سطح پر کی جاسکتی ہے جبکہ اس حوالے سے ٹیکس فری زونز کا اعلان کرتے ہوئے چند برس کا تذکرہ کیا جاتا ہے اور حکومت اس سلسلے میں نوٹیفیکیشن جاری کردیتی ہے۔ سو سال کا یہ مطالبہ ویسے ہی غیر فطری ہے کہ کوئی بھی ملک اس قسم کی ”عیاشی” کا متحمل نہیں ہوسکتا، اس لئے مطالبے کو معقولیت کی حد سے آگے نہیں جانا چاہئے۔

مزید پڑھیں:  ویج مجسٹریٹ کی تعیناتی