قیامت تعاقب میں تھی کیا ؟

قانون سازی کے عمل کی اہمیت اپنی جگہ لیکن اس عمل کی آڑ میں ایسے من پسند قوانین کی منظوری جن سے یہ تاثر دوچند ہوتا ہو کہ حکومت وقت اس سے اپنے مخالفین کو کچلنے یا کسی کی خواہش پر کسی خاص جماعت یا طبقے کو دیوار سے لگانے کی خواہش مند ہے کسی بھی طور لائق تحسین نہیں۔ حیران کن امر یہ ہے کہ حکومت نے اتوار کے روز سینیٹ کا اجلاس بلواکر انسداد دہشت گردی و انتہا پسندی بل کو بغیر کسی قائمہ کمیٹی میں بحث مباحثہ اور غوروفکر کے ایوان سے منظور کرانے کی حکمت عملی اپنائی۔ گو حکومت کی اس حکمت عملی کو اس کے اپنے اتحادیوں اور دیگر جماعتوں کے سینیٹروں نے ناکام بنادیا مگر اس کے باوجود یہ سوال اہم ہے کہ ایسی کیا افتاد آن پڑی تھی کہ اتوار کو چھٹی کے باوجود سینیٹ کا اجلاس بلانے اور بل منظور کرانے کی ضرورت پڑگئی؟ حکومت کے اتحادیوں نے اس پر جس ردعمل کا مظاہرہ کیا اس سے حکومت کی نیت پر شبہات کا پیدا ہونا فطری امر ہے۔ اس امر پر دو آراء نہیں کہ ملک میں انتہا پسندی اور دہشت گردی مکمل طور پر ختم نہیں ہوپائے متعدد آپریشنوں اور اقدامات کے باوجود عسکری اور انتہا پسند تنظیموں کی سرگرمیاں جاری ہیں۔ دہشت گردی کی حالیہ لہر جو افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد شروع ہوئی کی بدولت امن و امان کے حوالے سے تمام دعوے اور اندازے غلط ثابت ہوئے۔ عسکریت پسندی اور انتہا پسندی ہر دو کے خلاف پہلے سے ہی قوانین موجود ہیں نہ صرف قوانین بلکہ نیشنل ایکشن پلان بھی اس کے باوجود اگر ہر دو کے خاتمے میں موثر کامیابی حاصل نہیں ہوپائی تو ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور متعلقہ حکام مل بیٹھ کر جائزہ لیں کہ قوانین میں کوئی نقص ہے یا ان کے اطلاق کے معاملے میں نیت کی خرابی کا عمل دخل۔ جہاں تک اتوار کو سینیٹ میں پیش کئے جانے والے انسداد دہشت گردی و انتہا پسندی بل کے حوالے سے بعض حکومتی اتحادیوں اور جماعت اسلامی و دیگر جماعتوں کے سینیٹرز کے موقف کا تعلق ہے تو اسے یکسر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ مختلف جماعتوں کے سینیٹرز کے خیال میں یہ بل ریاستی قوتوں کو سیاسی جماعتوں کے خلاف لائسنس ٹو کل ہے۔ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے ایوان میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس بل کی دو شقوں سے یہ تاثر ابھرا کہ حکومت اس قانون کو سابق حکمران جماعت تحریک انصاف پر پابندی کے لئے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ حالیہ عرصہ میں بعض حکومتی رہنمائوں کے تحریک انصاف اور اس کے سربراہ بارے خیالات کا مذکورہ بل کے مندرجات کی روشنی میں جائزہ لیں تو نہ صرف اس تاثر کی تصدیق ہوتی ہے بلکہ ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ یہ قانون اس لئے منظور کروایا جارہا تھا کہ اس کے ذریعے ریاستی طاقت کو استعمال کرکے نگران دور میں ان جماعتوں سے نجات حاصل کرلی جائے جو اسٹیبلشمنٹ کی بڑھتی ہوئی طاقت اور وسیع ہوتے دائرہ اختیار کے لئے عوامی طور پر خطرہ ہیں۔ عین ممکن ہے کہ حکومت کی نیت یہ نہ ہو اس کا مقصد دستور پاکستان کی ان شقوں کو مزید طاقتور بنانا ہو جو سماجی وحدت، معاشی و سیاسی و مذہبی سیاسی حقوق کی بلاتعطل فراہمی کو یقینی بنانے پر زور دیتی ہیں نیز ایسی کسی تنظیم سازی کے بھی مانع ہیں جن سے مختلف الخیال طبقات کے بنیادی شہری سیاسی و دیگر حقوق متاثر ہوتے ہوں۔ ایسا ہے تو پھر وزارت قانون کو کم از کم حکومتی اتحادیوں سے تو بل کو پیش کرنے سے قبل مشاورت کرلینی چاہیے تھی۔ پیشگی مشاورت کے بغیر چھٹی والے دن سینیٹ کا اجلاس بلاکر بل منظوری کے لئے پیش کرنا نہ صرف جمہوریت اور قانون سازی کے بنیادی اصولوں سے متصادم ہے بلکہ اس سے اس خیال کو تقویت ملی کہ مذکورہ بل وزارت قانون کو کہیں سے موصول ہوا ہے اور خود اس وزارت کے قانونی ماہرین نے بھی اسے پڑھنے کی زحمت نہیں کی بلکہ وفاداری کے مظاہرے میں عجلت کا مظاہرہ کیا گیا جو حکومت کے گلے پڑگیا۔ منتخب حکومتیں اپنی آئینی مدت کے اختتامی عرصہ میں قانون سازی کے عمل میں تیزی لاتی ہیں۔ پچھلے دنوں حکومت نے ریکارڈ قانون سازی کی۔ مسلح افواج کی توہین و تحقیر والے قانون پر تو خود سابق حکمران جماعت کے سینیٹروں نے بھی حکومت کی حمایت کی حالانکہ یہ قانون وضاحت طلب ہے۔ سابق حکمران جماعت تحریک انصاف اور اس سے قبل (ن)لیگ نے بھی اپنے اپنے دور میں بھی اس طرح کی قانون سازی کی تھی۔ ایوان کو بتایا جانا چاہیے تھا کہ نیا قانون ترمیمی ہے یا پہلے سے موجود قوانین کے برعکس ہے۔ وزارت قانون نے ابتدا یہ تاثر دیا کہ یہ قانون پہلے سے موجود قانون میں بہتری لانے کے لئے ہے ایسا ہے تو پھر اسے ترمیمی قانون کا نام دیا جانا چاہیے تھا۔ اس معاملے میں ایک عمومی رائے یہ بھی ہے کہ مسلح افواج پر تنقید اور افسروں کی تحقیر کو جرم قرار دینے کی قانون سازی کے عمل میں اس امر کو مدنظر کیوں نہیں رکھا گیا کہ ماضی میں بعض ریاستی محکموں کی چھتر چھایہ میں جمہوری عمل کے خلاف منظم پروپیگنڈہ کروایا گیا اصولی طور پر تو قانون سازوں کو یہ معاملہ بھی دیکھنا چاہیے تھا کہ کیسے سرکاری وسائل جمہوری عمل کے خلاف پروپیگنڈے پر نچھاور کئے گئے اور یہ کہ اس کا نتیجہ کیا نکلا۔ امر واقعہ یہ ہے کہ حکومتی اتحادیوں دیگر جماعتوں اور خود چیئرمین سینیٹ نے انسداد دہشت گردی و انتہا پسندی بل کو چور دروازے سے لانے اور منظور کرنے کے عمل میں حکومت کا ساتھ نہ دے کر حقیقت پسندی کا مظاہرہ کیا۔ اتوار کے روز حکومت کو سینیٹ میں جس صورتحال سے دوچار ہونا پڑا غالبا اسے اس کا اندازہ نہیں تھا یا پھر اس کا خیال تھا کہ اتحادی سینیٹر لکیر کے فقیر کی طرح بل کی منظوری دے دیں گے۔ امید ہے کہ ہفتہ بھر کی آئینی مدت رکھنے والی حکومت اگلے آٹھ دس دنوں میں اس بات کا بطور خاص خیال رکھے گی کہ وہ جاتے جاتے ایسی قانون سازی نہ کرے جس کا خمیازہ مستقبل میں حکومتی اتحاد کی جماعتوں کو بھگتنا پڑے۔ اندریں حالات یہ عرض کیا جانا بھی ازبس ضروری ہے کہ سیاسی جماعتوں یا کسی مذہبی تنظیم کو عوام کی ہمدردیوں سے محروم کرنے کا واحد طریقہ دستور میں دیئے گئے سیاسی معاشی مذہبی و شہری حقوق کی بلاامتیاز فراہمی کے ساتھ ساتھ اس امر کو یقینی بنانا ہے کہ کوئی جماعت یا گروہ طاقت کے بل بوتے پر دوسروں کے حقوق کو پامال کرنے کی روش نہ اپنائے۔ بدقسمتی میں ماضی میں ریاست کی سرپرستی میں ایسے گروہ منظم ہوئے جن سے امن و امان کی صورتحال متاثر ہوئی مخصوص مقاصد کے لئے روا رکھی گئی چشم پوشی سے عسکریت پسند بے لگام ہوئے۔ اسی طرح بوقت ضرورت اسٹیبلشمنٹ کی ہمنوائی اور مخالفت ہر دو کی بدولت جہاں کچھ مسائل پیدا ہوئے وہیں سیاسی جماعتوں کی ساکھ بھی متاثر ہوئی۔ بہتر ہوگا کہ لایعنی قانون سازی کی بجائے حقیقت پسندی کے مظاہرہ کو اولیت دی جائے۔

مزید پڑھیں:  من حیث القوم بھکاری