ریویو آف ججمنٹ ایکٹ آئین پاکستان سے متصادم، کالعدم قرار دیدیا گیا

سپریم کورٹ ریویو اینڈ ججمنٹ ایکٹ کو اس طرح بنایا گیا جیسے آئین میں ترمیم مقصود ہو، اگر اس قانون کے تحت اپیل کا حق دے دیا گیا تو مقدمہ بازی کا ایک نیا سیلاب امڈ آئے گا، پارلیمنٹ ایسی قانون سازی کا اختیار نہیں رکھتا۔ طے شدہ اصول ہے کہ سادہ قانون آئین میں تبدیلی یا اضافہ نہیں کر سکتا اور سپریم کورٹ رولز میں تبدیلی عدلیہ کی آزادی کے منافی ہے۔ عدالت نے 87 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا۔
ویب ڈیسک: سپریم کورٹ ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹ ایکٹ کیس کے بارے میں عدالت عظمیٰ کی جانب سے جاری ہونے والے متفقہ فیصلہ میں اس ایکٹ کو آئین کے خلاف قرار دیتے ہوئے اسے کالعدم قرار دیدیا گیا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ ایسی قانون سازی کا اختیار نہیں رکھتا، سپریم کورٹ ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹ ایکٹ کا تحریری حکمنامہ بھی جاری کر دیا گیا ہے.
جسٹس اعجاز الاحسن نے 87 صفحات پر مشتمل فیصلہ تحریر کیا ہے، جسٹس منیب اختر کا اضافی نوٹ بھی متفقہ فیصلے کا حصہ ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ ریویو ایکٹ پارلیمان کی قانون سازی کے اختیار سے تجاوز ہے، سپریم کورٹ ریویو ایکٹ کی کوئی قانونی حیثیت نہیں لہذا اسے کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔ کسی بھی قانون کو اس وقت تک کالعدم قرار نہیں دینا چاہیے جب اس کی شقیں آئین سے ہم آہنگی رکھتی ہوں۔
فیصلے کے مطابق ریویو آف ججمنٹ آئین پاکستان سے واضح طور پر متصادم ہے، یہ ممکن نہیں ہے کہ اس قانون کو آئین سے ہم آہنگ قرار دیا جائے۔ ہم نے آئین کا تحفظ اور دفاع کا حلف اٹھا رکھا ہے۔ پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار سے متعلق قانون سازی نہیں کر سکتی۔ طے شدہ اصول ہے کہ سادہ قانون آئین میں تبدیلی یا اضافہ نہیں کر سکتا اور سپریم کورٹ رولز میں تبدیلی عدلیہ کی آزادی کے منافی ہے۔ ریویو اینڈ ججمنٹ ایکٹ کو اس طرح بنایا گیا ہے جیسے آئین میں ترمیم مقصود ہو، اگر اس قانون کے تحت اپیل کا حق دے دیا گیا تو مقدمہ بازی کا ایک نیا سیلاب امڈ آئے گا، سائیلان سپریم کورٹ سے رجوع کرنا شروع کر دیں گے، اس بات کو سامنے رکھے بغیر کہ جو فیصلے دئیے گئے ان پر عملدرآمد بھی ہو چکا ہے۔
سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر فیصلے کے لیے عدالت نے فریقین کو الیکٹرانک نوٹس بھجوائے تھے۔ یاد رہے کہ 19 جون کو چیف جسٹس پاکستان عمرعطابندیال،جسٹس منیب اختر اورجسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل بنچ نے کیس کی 6 سماعتیں کرنے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
ایکٹ کے تحت آرٹیکل 184 تھری کے مقدمات کے فیصلے کے خلاف متاثرہ فریق کو اپیل کا حق دیا گیا تھا، اپیل سننے والے بنچ میں ججز کی تعداد مرکزی کیس سننے والے ججز سے زیادہ ہونا لازم ہے تاہم پی ٹی آئی سمیت انفرادی حیثیت میں وکلاء نے اس ایکٹ کو چیلنج کیا تھا۔
چیف جسٹس نے تفصیلی فیصلے میں 5 رکنی لارجر بینچ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 5 رکنی لارجر بینچ طے کر چکا ہے کہ ماسٹر آف دی روسٹر چیف جسٹس ہے، سپریم کورٹ قانون میں تبدیلی نہیں کرسکتی اور آئین واضح کر چکا ہے کہ تمام فریقین عدالتی فیصلوں پر عمل کے پابند ہوں گے۔
سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ کی 7 شقیں ہیں۔
شق نمبر ایک کے تحت ایکٹ سپریم کورٹ (ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز) ایکٹ 2023 کہلائے گا، شق نمبر 2 کے تحت سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار مفاد عامہ کےمقدمات کی نظر ثانی کے لیے بڑھایا گیا، شق 2 کے تحت ہی مفاد عامہ کے مقدمات کی نظر ثانی کو اپیل کے طور پر سنا جائے گا۔
شق نمبر 3 کے مطابق نظر ثانی کی سماعت پر بنچ میں ججز کی تعداد مرکزی کیس سے زیادہ ہوگی۔ شق نمبر 4 کے مطابق نظر ثانی میں متاثرہ فریق سپریم کورٹ کا کوئی بھی وکیل کر سکے گا۔ شق نمبر 5 کے تحت ایکٹ کا اطلاق آرٹیکل 184، 3 کے پچھلے تمام مقدمات پر ہو گا، شق نمبر 5 کے مطابق ہی متاثرہ فریق ایکٹ کے اطلاق کے 60 دنوں میں اپیل دائر کر سکے گا۔
شق نمبر 7 کے مطابق ایکٹ کا اطلاق ملتے جلتے قانون، ضابطے یا عدالتی نظیر کے باوجود ہر صورت ہو گا۔
یاد رہے کہ 19 جون کو چیف جسٹس پاکستان عمرعطابندیال،جسٹس منیب اختر اورجسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل بینچ نے کیس کی 6 سماعتیں کرنے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ مذکورہ بل 14 اپریل کو قومی اسمبلی سے منظور ہونے کے بعد 5 مئی کو سینیٹ سے بھی منظور کرلیا گیا تھا جس پر صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے 26 مئی کو دستخط کر کے اسے قانونی حیثیت دی تھی۔

مزید پڑھیں:  ملک بھر میں ہیٹ ویو، بارشوں اور طوفان کا الرٹ جاری