پشاورپھرپولیوکی زدمیں!

وزارت قومی صحت کے مطابق صوبائی دارالحکومت پشاورکے ماحولیاتی نمونے میں پولیووائرس کی تصدیق ہوئی ہے،ملک میں رواں سال مثبت ماحولیاتی نمونوںکی تعداد15ہوگئی ہے،وفاقی سیکرٹری قومی صحت کے مطابق پاکستان پولیوپروگرام ملک بھرمیںپولیوکے خاتمے کیلئے پرعزم ہے،وائرس جینیاتی طورپرافغانستان میں موجودپولیووائرس سے تعلق رکھتاہے،جہاں وائرس موجودہوتاہے وہاںمربوط حکمت عملی تشکیل دی جاتی ہے،جہاں تک پشاورمیںپولیووائرس کے ختم نہ ہوسکنے کاتعلق ہے ،باوجودیہ کہ گزشتہ کئی برس سے محکمہ صحت کی کوششوں اور حکومت کی مربوط پالیسیوںکے تحت اس مرض پرقابوپانے میںہم بڑی حدتک کامیاب ہوچکے تھے اورماضی قریب میںاکادکاکیس کے علاوہ کسی نئے کیس کی تشخیص نہ ہوسکی تھی،تاہم جیساکہ اب وفاقی سیکرٹری صحت نے حقائق سے پردہ اٹھاتے ہوئے پولیو وائرس کی جینیاتی شکل میںاس کا تعلق افغانستان سے جوڑدیاہے تواس میں بہت حدتک سچائی کاعنصرشامل دکھائی دیتاہے،چونکہ افغانستان واپس جانے والے باربارمڑکرنزدیک ترین شہریعنی پشاورآجاتے ہیں اس لئے عین ممکن ہے کہ یہ لوگ پولیووائرس اپنے ساتھ لاتے ہوں گے،اس سے پہلے اگرچہ ٹی بی جیساموذی مرض بھی ختم ہوچکاتھامگرافغانستان سے آنے والے ہزاروں ایسے افرادجوقالین بافی کے پیشے سے وابستہ ہیں احتیاطی تدابیرنہ برتنے کی وجہ سے اس مرض میں مبتلاہوجاتے ہیں،اورافغانوں کی آمدکے بعدقالین بافی کے لاتعدادکارخانے بھی پشاورشفٹ کردیئے گئے تھے،جن کے ساتھ ٹی بی کامرض بھی دوبارہ عودکرآیاتھا۔اس حوالے سے محکمہ صحت کے متعلقہ شعبے سے اعدادوشمار منگواکرتصدیق کی جاسکتی ہے،بہرحال ضرورت اس امرکی ہے کہ افغانستان سے علاج معالجے یادیگرسرگرمیوںکیلئے پشاوراور چمن کے بارڈرپرگزرنے سے پہلے ان میں پولیووائرس کیری کرنے کی تصدیق کرکے ہی صرف صحت مندافرادکوویزے جاری کرنے کی حکمت عملی سے مسئلے کوحل کیاجاسکتاہے، البتہ جولوگ چورراستوںسے سرحدپارکرکے آتے ہیںان پرتو کوئی پابندی لگاناممکن ہی نہیںہے ،اس لئے ان سے کیسے نمٹاجاسکتاہے؟،اس سلسلے میں بھی کوئی نہ کوئی پالیسی ضرورمرتب کرنی چاہیئے،تاکہ پولیووائرس پھیلنے سے روکنے میںآسانی ہو،اور یہ ذمہ داری متعلقہ صحت اداروں کی ہے کہ وہ مربوط پالیسی تشکیل دینے پرتوجہ دیں۔

مزید پڑھیں:  ہم غلام ہیں!!