متفقہ قومی حکومت کا شوشہ

گزشتہ کچھ عرصے سے ملک میں ایک بارپھر صدارتی نظام کے شوشے چھوڑے جانے اور تحریک انصاف کی حکومت کے دوران اس حوالے سے بھرپور میڈیائی پروپیگنڈہ کرنے کے باوجود اس قسم کی مبینہ سازشوں میں ناکامی کے بعد جس میں بعض سابق ایسے افراد کا ہاتھ تھا جن کے سیاست میں ”مداخلت”کے حوالے سے اب حقائق ڈھکے چھپے بھی نہیں رہے اور جو اس وقت کی حکومت کے ساتھ مل کرتین چوتھائی اکثریت کے بل پر آئین میں ایک بار پھر ترمیم کے ذریعے پارلیمانی نظام کے خاتمے اور صدارتی نظام کے احیاء کی کوششیں کر رہے تھے ‘ تاہم اس وقت کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اس مبینہ سازش کوبیخ وبن سے اکھاڑنے کے بعد صورتحال میں ”سازشی تھیوری” کے ذریعے تبدیلی کوناکام بنا دیاگیا ‘ اس کے بعد ایک سابق وفاقی وزیر اور کئی برس سے سیاست کو عارضی طور پر خیر بادکہنے اورخاموش رہنے والے محمد علی درانی نے اچانک سیاست میں دوبارہ انٹری دیتے ہوئے صدر مملکت اور بعض اہم حلقوں سے تعلق رکھنے والے اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ ملاقاتوں کاسلسلہ دراز کرتے ہوئے سیاسی سرگرمیاں شروع کردیں اپنے تازہ بیان میں محمد علی درانی نے قوم کومشورہ دیا ہے کہ ملک کو (درپیش )سنگین ترین بحرانوں سے نکالنے کے لئے پانچ سال کے لئے منتخب نیشنل یونٹی گورنمنٹ بنائی جائے جوبقول ان کے ایک متفقہ قومی ایجنڈے پر عمل درآمد کرائے گی ‘ ”پاکستان ‘ جمہوریت’ معیشت اور فوج” کے عنوان سے ملک میں سیاسی اتفاق رائے کے پہلے مرحلے کے تکمیل کے بعد جناب درانی نے یہ نیا پلان پیش کیا ہے جس میں تجویز کیا گیا ہے کہ عام انتخابات میں منتخب ہو کر پارلیمنٹ میں آنے والی تمام سیاسی جماعتوں کی متحدہ قومی حکومت تشکیل دی جائے جو پانچ سال کی مدت میں ملک کو درپیش موجودہ سنگین ترین بحرانوں سے نکالنے کے لئے ایک متفقہ قومی ایجنڈے پر عمل درآمد کرائے ‘ انہوں نے دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانیہ ‘1988 میں شمالی آئرلینڈ اور 1994ء میں جنوبی افریقہ میں نیلسن منڈیلا کی نیشنل یونٹی گورنمنٹ کی مثالیں دیتے ہوئے اصرار کیا کہ ان ممالک نے پارلیمانی ڈھانچے میں رہتے ہوئے یہ حکومتیں بنائیں ‘ ان تاریخ حوالوں سے رہنمائی لیتے ہوئے پاکستان میں بھی نیشنل یونٹی گورنمنٹ بنائی جائے جس میں باضابطہ کوئی اپوزیشن نہیں ہوگی ‘ بلکہ تمام سیاسی جماعتیں مل کر ایک قومی ایجنڈے کی کامیابی کے لئے کام کریں ‘ محمد علی درانی نے کہا ہے کہ ایک محب وطن مضطرب پاکستانی کے طور پر یہ پلان پیش کر رہا ہوں کیونکہ وطن عزیز اس وقت شدید معاشی مشکلات اور پریشان کن سیاسی ماحول سے دو چار ہے ‘ جس سے پوری قوم نہ صرف پوری طرح آگاہ ہے بلکہ اس پر رنجیدہ بھی ہے ۔جہاں تک پاکستان کے معروضی حالات کاتعلق ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ گزشتہ کئی سال سے پاکستان معاشی مشکلات کے سنگین ترین حالات سے دو چار ہے ‘ جس کی وجوہات ملک کابچہ بچہ جانتاہے اس لئے اس پربات کرنے کی بجائے اس صورتحال سے نمٹنے اور مشکلات سے باہر آنے پرغور و فکرزیادہ ضروری ہے ‘ تاہم جہاں تک محمد علی درانی کے ”منصوبے” کا تعلق ہے ہمیں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ ملک میں بعض حلقوں کی جانب سے گزشتہ چند برسوں کے دوران پارلیمانی سیاست کا بساط الٹنے اور ایک بار پھرصدارتی نظام کے احیاء کی جو”سازشیں” کی جارہی تھیں ‘موجودہ پلان اسی منصوبے کی بطرز دیگر تکمیل کی”کوششیں”دکھائی دیتی ہیں’ پارلیمانی نظام کا حسن ہی ملک کی منتخب پارلیمان میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے مابین کسی بھی قومی مسئلے یامعاملے پر مثبت بحث و تمحیص کے بعد قومی مفاد کے تحت فیصلہ کرکے آگے بڑھنا ہوتا ہے’ جبکہ اس نئے مجوزہ پلان کے تحت اگر منتخب نیشنل یونٹی کے نام سے حکومت قائم کی جائے تو اہم قومی معاملات پر منتخب پارلیمان کے اندر بحث و تمحیص کے دروازے ہی سرے سے بند ہوجائیں گے ‘ جوپارلیمانی روایات کے برعکس صورتحال ہوگی ‘بدقسمتی سے ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں کے مابین اتفاق رائے کے فقدان کی جو صورتحال ہے اس میں سیاسی ‘ پارلیمانی روایتی مخالفت کے برعکس ذاتی بغض وعناد اور مخالف سیاسی جماعتوں کوغیر جمہوری رویوں کے ذریعے دبانے کی نامناسب روایات زیادہ مضبوط اور توانا ہیں ‘اس حوالے سے ماضی میں جو رویئے مختلف ادوار میں اختیار کئے جاتے رہے ہیں وہ ہماری سیاسی تاریخ کے ”انمنٹ منفی نقش” کی صورت میں سیاسی جسد خاکی کے اندر موجود ہیں ‘ جبکہ اس معاملے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ بفرض محال ایسا ہوبھی جاتا ہے اورتمام سیاسی جماعتیں”باہمی اختلافات” تج کرایک ہی پلیٹ فارم پرمتفق ہوجائیں تو اس کے بعد وہ عوام کا جو حشر”مل جل کر” کریں گی اس سے حالات کیاصورت اختیار کرسکتے ہیں اور عوام کے مفادات کے تحفظ کی ذمہ داری کس کے سرہو گی اس پر ضرور غور کرنا چاہئے ‘ بہرحال یہ تجویز ایک اور طرح سے اسی پرانے منصوبے یعنی ملک میں ایک بار پھر صدارتی نظام کے احیاء کی کوشش ہی دکھائی دیتی ہے ‘ جس پر پارلیمانی نظام کے حامیوں کوسنجیدگی کے ساتھ سوچنا پڑے گا۔

مزید پڑھیں:  عدلیہ ، عوام اور دستورِ مظلوم