مستقل ناا ہلی کے فیصلے کی واپسی

سپریم کورٹ کے7رکنی لارجر بینچ نے6-1کی اکثریت سے فیصلہ سنا تے ہوئے قرار دیا کہ کسی شخص کو تاحیات الیکشن لڑنے سے نہیں روکا جا سکتا یقینا ایک اور تاریخی فیصلہ ہے جس میں سپریم کورٹ نے سمیع اللہ بلوچ کیس میں اپنے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے قانون سازوں کی تاحیات نااہلی کو کالعدم قرار دے دیا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے سات رکنی لارجر بینچ نے 6-1 کی اکثریت سے فیصلہ سنایا اور قرار دیا کہ آرٹیکل 62 (1) (f) کے تحت نااہل ہونے پر کسی بھی شخص کو تاحیات الیکشن لڑنے سے نہیں روکا جا سکتا۔گزشتہ روز سپریم کورٹ نے اپنی سابقہ غلطی سے رجوع کیا ججوں کے ایک نئے سیٹ نے6-1کی اکثریت سے اتفاق کیا کہ پرانے بنچ نے آئین کی حد سے تجاوز کیا ہے نئی بنچ نے اس امر کا اعادہ کیا کہ ایسا کوئی قانون نہیں ہے جو آئین کے آرٹیکل 62(1)(f) میں بیان کردہ اعلان کرنے کے طریقہ کار، طریقہ کار اور عدالت کی شناخت کے لیے فراہم کرتا ہو اور اس طرح کے اعلان کی مدت، اس کے تحت نااہلی کے مقصد کے لیے، آئین کے آرٹیکل 10A کے ذریعے ضمانت دی گئی ۔بنا بریں قرار دیا گیا کہ جب تک ان خامیوں کو دور کرنے کے لیے قانون کو اپ ڈیٹ نہیں کیا جاتا، آرٹیکل 62(1)(f) کے تحت نااہلی تاحیات نہیں رہ سکتی اور یہ ایک منتخب حکومت پر منحصر ہے کہ وہ اتفاق رائے سے یا دو تہائی اکثریت کے ساتھ اسے کالعدم کر دے۔ قومی قائدین سے اعلی طرز عمل کی توقع رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ تاہم، جب اہلیت کے لیے ‘ضروریات’ اخلاقیات کے نظریات پر مبنی شخصیت کے خصائص کا مطالبہ کرنے لگیں جن کی مختلف لوگ مختلف طریقے سے تشریح کرتے ہوئے تو لامحالہ طور پر وہ اپنا مقصد کھو دیتے ہیں۔یہ قانون کے مطابق نہیں ہو سکتا کہ اس قسم کی صوابدیدی شرائط کی بنیاد پر انتخاب کیا جائے کہ کون قیادت کے اہل ہے اور کون قیادت کے اخلاقی طور پر مستحق نہیں ہے اور اس لیے انتخابی عمل میں کس کو حصہ لینے کی اجازت دی جائے اورکسے محولہ قسم کے عدالتی فیصلوں کے ذریعے باہر رکھا جائے بدقسمتی سے اس وقت بھی یہ غلطی دہرانے کا خدشہ موجود ہے حالانکہ ایسے فیصلوں کو ووٹ دینے والے شہریوں کے فیصلے پر چھوڑ دینا چاہیے۔بہرحال محولہ فیصلے کے بعد پارلیمان نے ایک قانون پاس کیا تھا کہ نااہلی کی مدت 5سال سے زائد نہیں ہونی چاہیے، اب یہ بات درست ہے اور سپریم کورٹ نے آج اس فیصلے کے ذریعے پارلیمان کے اس فیصلے کو تسلیم کیا ہے یہ ملک کے اندر ایک اچھا عمل اور اچھی روایت ہے اور پارلیمان کے ہر فیصلے پر نظرثانی کر کے اس پر بحث کرنا مناسب عمل نہیں تھا سپریم کورٹ نے پارلیمان کی بالادستی اور عوام کے حق رائے دہی کی بالادستی کوتسلیم کیاہے جو قابل اطمینان امر ہے۔ اس فیصلے کے سیاسی مضمرات میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے نواز شریف کے لیے چوتھی بار وزیر اعظم بننے کی راہ ہموار کر دی ہے اگر ان کی پارٹی آئندہ انتخابات میں جیت جاتی ہے اور اگر وہ وزیر اعظم کا امیدوار بننے کا فیصلہ کرتے ہیں تو کوئی عدالتی فیصلہ اب ان کے راہ کی رکاوٹ نہیں بنے گی کیونکہ ان کی سزا کو کالعدم قرار دے دیا گیا ہے اور اب تاحیات نااہلی کے فیصلے کو بھی کالعدم قرار دے دیا گیا ہے۔ اگرچہ پی ٹی آئی اس فیصلے کو نوازشریف کے حق میں قرار دیا ہے، لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ اس فیصلے سے عمران خان کو بھی فائدہ پہنچے گا، جو اب سزا کے باوجود تاحیات نااہل نہیں ہو سکتے۔ تاہم اس طرح کی ستم ظریفی ایک ایسی سیاست میں کھو جاتی ہے جہاں سیاسی حامی سے لے کر صحافی تک، ہر کوئی ان معاملات کو ممکنہ حد تک غیر معمولی انداز میں دیکھتا ہے: یہ سوال کرنے کے بجائے کہ کل کے فیصلے سے فائدہ اٹھانے والے کو اجاگر کرنا کہ آیا اصل فیصلہ قانونی اور آئینی طور پر درست تھا یا نہیں اس مسئلے کو دیکھنے کا طریقہ ہی مختلف اورہر کسی کا اپنا اور مخصوص نقطہ نظر ہے مقام اطمینان امریہ ہے کہ موجودہ عدلیہ نے عدلیہ کی ساکھ بحال کرنے کا بیڑا اٹھا لیا ہے

مزید پڑھیں:  وزیر اعظم محنت کشوں کو صرف دلاسہ نہ دیں