”مجھے تھوڑی سی سچائی درکار ہے”

برطانیہ کی یونیورسٹی آف باتھ کے محققین کی ایک نئی تحقیق میں یہ سامنے آیا ہے کہ وہ سیاستدان جو زیادہ جھوٹ بولتے ہیں ان کے لئے کسی قسم کا عہدہ حاصل کرنے کا امکان بھی زیادہ ہوتا ہے ۔وطن عزیز پاکستان میں عام انتخابات پھر عوام الناس سے ملنے کا موسم آگیا ہے ۔غریب عوام ایسے میں کچھ دنوں کے لئے وی آئی پی پروٹوکول کی چھتری تلے زندگی کے مزے بھی لوٹ لیتے ہیں ۔اپنے ہر دلعزیز سیاستدانوں کی قربت حاصل کرلیتے ہیں ۔انہی دنوں غربت کے مارے عوام سے ان کی محبت و چاہت اپنے عروج پر دکھائی دیتی ہے ۔انتخابات کا موسم جب بھی آتا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکمرانوں کا غریب عوام کے بغیر جینا حرام ہے۔دوسری طرف ان مطلبی حکمرانوں کے صدقے واری جاتے ہیں ۔شاید ان کے اس پر لوث محبت سے ناآشنا عوام دھوکہ کھا جاتے ہیں اور صحیح قیادت کا انتخاب نہیں کر پاتے ۔تمام سیاسی ،مذہبی جماعتوں کے لیڈران اس وقت اپنے کارناموں اور مایوسیوں کا کشکول تھامے ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے میں اتنے مصروف ہیں کہ انہیں خبر ہی نہیں کہ دنیا انہیں دیکھ رہی ہے۔اپنی زبانوں پر قابو نہیں،گلے پھاڑ پھاڑ کر ایک دوسرے کی ذاتیات پر حملے کرتے ہیں۔عوام کا دل موم کرنے کے لئے جتنا زیادہ ہوسکتاہے جھوٹ بولے چلے جاتے ہیں ۔ہماری قومی وصوبائی سیاست گزشتہ کئی دہائیوں سے سچائی سے محروم ہو چکی ہے ۔آج کل کے سیاستدانوں کو دیکھ کر میرے ذہن میں اس ڈبل شاہ کی کہانی گونجتی ہے کہ کیسے سیاستدان عوام کے ساتھ دھوکہ کر کے بھی اقتدار کے مزے لوٹتے رہتے ہیں اور ہر دھوکہ دہی پر بس ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ وہ تو میرا سیاسی بیان تھا۔اس دھوکہ دہی نے ڈبل شاہ کو ساری زندگی کے لئے پس زنداں کر دیا اور وہ ہمیشہ کے لئے فراڈ کی علامت بن کر رہ گیا مگر سیاستدان اپنے وعدوں سے مکر جائیں تو وہ پھر بھی صادق و آمین ہی رہتے ہیں ۔اگر جھوٹ بولنے کا ورلڈ کپ ہوتا تو حکمران جیت جاتے ۔ملکوں کی تقدیر ان سیاستدانوں نے بدلی جو سچ اور حقیقت پر مبنی بیانیے پر عوام کا مینڈیٹ لے کر حکومت میں آئے ۔ترقی یافتہ ممالک میں سیاستدانوں کے جھوٹ پر ان کی حکومتیں ختم ہو جاتی ہیں اور ان پر مقدمے بن جاتے ہیں مگر پاکستان میں سیاست دروغ گوئی کے بغیر ممکن نہیں اور جب جھوٹ پکڑے جاتے ہیں تو وہ انہیں آسانی سے سیاسی بیان قرار دے دیتے ہیں ۔ بہر حال یہ بات ہر شخص جانتا ہے کہ ظاہری حالت دھوکہ دے سکتی ہے۔ہم پر آئے دن نام و نمود شہرت ،دولت،اور کامیابی کے خیالات بموں کی طرح یورش کرتے ہیں ۔مایوسی وافسردگی نے شروع میں پاکستان کے لاکھوں دلوں پر قبضہ جما لیا ہے۔مجھے تو افسوس اپنے ان عقل کے اندھوں پر ہوتا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ اور یورپ سمیت سارا مغرب انسانی حقوق کا بڑا محافظ اور سب سے بڑا علمبردار ہے جبکہ وطن عزیز پاکستان میں شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق کا خیال تک نہیں رکھا جاتا ۔ان کے عقل پر تعجب ہوتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ مغرب میں اظہار رائے سمیت شہریوں کو ہر قسم کی آزادی حاصل ہے۔مغرب کا یہ دعویٰ ہر گز غلط اور سراسر جھوٹ پر مبنی ہے کہ انسانیت کی قدریں صرف ان کے ہاں پیدا ہوئیں۔یہ دعویٰ بھی تسلط جمانے کی غرض سے کیا جاتا ہے ۔انسانی حقوق کو آفاق کہنے سے یہ مراد نہیں لینے چاہئے کہ یہ مغربی ممالک سے نکلے اور آفاقی ہوگئے بلکہ یہ کہ ان میں پنہان قدریں ہر معاشرے اور تہذیب کا تاریخی ورثہ ہیں ۔ دنیا کے ہر مذہب میں انسانیت ، ہمدردی ، رواداری ، محبت،مساوات،دوسروں کی مدد کرنا،برابری وغیرہ جیسی قدریں ملتی ہیں ۔ دنیا کے ہر معاشرے اور تہذیب میں ان قدروں کو پامال بھی کیا گیا اور آمرانہ حکومتوں اور ظالم حکمرانوں نے انہیں پیروں تلے روندا چنانچہ یہ آمرانہ حکمرانوں کا تحفہ ہے کہ دین یا ایمان کے اندر چھپی اچھی قدروں کو روندا جائے اور جابرانہ عناصر کو ابھارا جائے ۔ ہماری تاریخ میں اور مقامی روایات میں انسانیت ،رواداری،اور مل جل کر رہنے کی قدریں موجود ہیں۔انہیں تلاش کر کے منظر عام پر لانے کی شدید ضرورت ہے تاکہ ہم بنیاد پرستوں کے اکلوتے اور حتمی سچ کے آگے بے بس نہ ہو جائیں۔اسی طرح اب جدت کی طرف لے جانے والی قومی ریاست لوگوں کو جدید بنانا چاہ رہی ہے اور ان کے عقائد پر یلغار کر رکھی ہے ۔ لوگوں کو سامراجی علم کے ذریعے جدید اور مہذب بنایا جا رہا ہے ۔یہ نئے عقائد نئے تشدد کو جنم دے رہے ہیں جو ترقی،جدیدیت اور قومیت کے نام پر کیا جا رہا ہے ۔قوم کی تعمیر ،سائنسی ترقی ، تحفظ ، جدیدیت ،معاشی ترقی نیا مذہب بن چکے ہیں جن کی جستجو میں لوگوں کا طرز زندگی تباہ کیا جا رہا ہے ۔یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ ہر شخص کو مغربی آدمی جیسا ہونا چاہئے ۔اگر اقوام متحدہ کوئی نیا منشور ترتیب دے جو آج کل کی حقیقتوں پر مبنی ہو تو اس کے اطلاق کے موثر طریقے بھی ترتیب دے ورنہ محض ایک منشور بنا دینا اور اسے صرف اس وقت استعمال کرنا جب اپنا مفاد ہو سراسر منافقت ہے۔ اس سے بہتر ہے کہ کوئی منشور تیار نہ کیا جائے جو اسرائیل پر لاگو نہ ہوسکے،برطانیہ اور فرانس پر لاگو نہ ہوسکے،خود امریکہ پر لاگو نہ ہو سکے ۔ انسانی حقوق کی سب سے بڑی خلاف ورزی جو سب سے سنگین ہے وہ سامراجی قوتوں کا معاشی اور سیاسی تسلط ہے۔جب تک مسلمانوں میں اسلام کے اعلی اقدار کی محبت رہی اور اپنے بلند نصب العین اور رضائے الہٰی کیلئے جان ومال کی قربانی دیتے رہے ، وہ دنیا میں کامیاب و کامران رہے اور جس طرف بھی انہوں نے رخ کیا وہاں کی بڑی بڑی سلطنتیں ان کے تابع فرمان ہوتی رہیں اور حکمرانوں کے تحت ان کے قدموں کے نیچے آتے رہے۔جو قوم بھی آزاد ہوتی ہے اس کی اولین توجہ ملک میں دور غلامی کے مروجہ دستور وائین کو ہٹانے اور ان کی جگہ اپنے نظریات وعقائد پر مبنی دستور کو رائج کرنے کی طرف مبذول ہوتی ہے ۔لیکن اس آسمان کے نیچے ایک ایسا ملک بھی ہے جس میں رہتے مسلمان ہیں،حکومت مسلمانوں کی ہے،اس کو آزاد ہوئے چھہتر سال ہو رہے ہیں مگر اب تک وہ انہی قوانین کے مطابق زندگی بسر کر رہے ہیں جن سے چھٹکارا پانے کے لئے انہوں نے اتنی عظیم قربانیاں دیں ۔ دراصل ملک کی بدقسمتی سے جو طبقہ مسلط ہو گیا ہے وہ نہیں چاہتا کہ عوام کی خواہشات کے مطابق اسلامی نظام قائم ہوحالانکہ ہماری سلامتی اسلامی دستور کے ساتھ وابستہ ہے ۔کوئی خواہ کچھ ہی علاج بتائے لیکن میرے نزدیک اس کا واحد علاج اسلامی آئین کا نفاذ ہے۔اسلام دنیا کا ایسا مذہب ہے جو انسانیت کے حقوق کا سب سے بڑا علمبردار ہے ۔ پاکستان میں عنقریب انتخابات ہونے والے ہیں مختلف سیاسی جماعتوں کے امیدوار انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ پاکستان میں اگر اسلامی دستور مرتب ہوجائے تو دنیائے انسانیت کے سامنے امید کی سنہری کرن نمودار ہوجائے گی۔پس فی الواقع پاکستان میں اسلامی دستور کی تدوین عالمی انسانی ضرورت ہے ۔آج تک جتنی بھی مرتبہ ملک میں انتخابات ہوئے،مختلف سیاسی جماعتیں آئیں اور گئیں خواہ وہ کتنے ہی دعوے اور وعدے کرلیں مگر اب کی بار کاش عوام ذرا ہوش سے کام لیں تاکہ ملک کو صحیح نہج پر گامزن کر سکیں آئیے سچ تلاش کریں اور اپنی معاشرت کو خوبصورت بنائیں۔

مزید پڑھیں:  چوری اور ہیرا پھیری