انتخابات التواء ۔۔ ایک اور قرارداد

چند روز قبل سینیٹ آف پاکستان میں کو رم پورا نہ ہوتے ہوئے بھی انتخابات کے التوا ء کی ایک قرار داد نہ صرف جمع کرائی گئی بلکہ اس پر بحث کے بعد اسے منظور بھی کرالیا گیا اور عجلت میں منظور کرائی جانے والی اس مبینہ طور پر غیر قانونی قرار داد کا نوٹیفیکشن بھی جاری کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو ”ہدایت” دی گئی کہ قرارداد پر عمل درآمد کرتے ہوئے انتخابات کے التوا ء کا حکم جاری کیا جائے ‘ قرارداد کو صدر مملکت کے پاس بھی بھجوایا گیا ‘قرار داد کے خلاف صرف ایک ہی آواز اٹھی اور نون لیگ کے سینیٹر افنان اللہ نے اس پر شدید تنقید کرتے ہوئے اس کی مخالفت میں تقریر کی تاہم کورم پورا نہ ہونے کا سوال کسی نے بھی نہیں اٹھایا ‘جبکہ الیکشن کمیشن نے دوٹوک انداز میں اسے رد کرتے ہوئے اس پر عمل درآمد سے انکار کر دیا تھا’ اس ساری” واردات” کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا ؟ اس حوالے سے مختلف آراء سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہیں اور ”التوائ”سے ممکنہ فائدہ اٹھانے والوں کی جانب اشارے کئے جاتے رہے بہر حال جب اپنی اسی چال کو ناکامی سے دوچار ہوتے دیکھا گیا تو گزشتہ روزفاٹا سے آزاد پارلیمانی گروپ کے سینیٹر ہدایت اللہ نے ایک اور قرار داد سینیٹ میں جمع کروا کر عام انتخابات مزید تین ماہ کے لئے ملتوی کرنے کی درخواست کی ہے التواء کی وجوہات میں سکیورٹی چیلنجز کا ذکر کیا گیا ہے کہ ایوان بالا الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ پر زور دیتا ہے کہ وہ انتخابات کے پرامن انعقاد پر ہمدردانہ غور کرے’ انتخابی امیدواروں کو نشانہ بنانے کے بڑھتے ہوئے واقعات میں اضافہ پر گہری تشویش ہے’ قرار داد میں کہا گیا ہے کہ شمالی وزیرستان با جوڑ’ صوابی اور تربت میں مسلح حملے ہوئے’ الیکشن لڑنے والے ایک بزرگ سیاستدان زخمی اور ایک امیدوار جاں بحق ہوئے ہیں’ ملک میں خوف اور عدم تحفظ کا ماحول پیدا ہوا ہے ‘ امیدواروں کی رہائش گا ہوں اور دفاتر دھمکی آمیز پمفلٹس کی تقسیم سکیورٹی اداروں کے لئے چیلنج ہے’ آئین تمام شراکت داروں کی حفاظت اور بلا رکاوٹ شرکت یقینی بنانے پر زور دیتا ہے، جہاں تک اس نئی قرار داد کی بات ہے تو اگر چہ اس میں بیان کئے جانے والے حالات میں کسی نہ کسی حد تک صداقت تو ضرور ہے تاہم یہ کوئی پہلی بار ایسا نہیں ہو رہا ہے کہ انتخابات کے خلاف کچھ قوتیں سرگرم ہو کر ان کو التواء سے دوچار کرنے کی مذموم کوششیں کر رہی ہیں ۔2018ء کے انتخابات کے دوران بھی کم و بیش ایسے ہی حالات تھے ‘اس وقت صوبہ خیبرپختونخوا میں اے این پی اور جمعیت کے خلاف بھی دہشت گردانہ کارروائیاں شدت سے کی جارہی تھیں’ اے این پی کے اہم رہنمائوں کے خلاف جان لیوا حملوں کے نتائج سے سب اچھی طرح واقف ہیں جبکہ سکیورٹی اداروں کے افسروں اور جوانوں پربھی جان لیوا حملے ریکارڈ پر ہیں ‘ مگر انتخابات کے التواء کے بارے میں کوئی سوچ ابھر نہ سکی ‘ اب بھی اگرچہ کئی سیاسی رہنمائوں اور دیگر قائدین کے خلاف دہشت گردانہ حملوں کے حوالے سے تھریٹس موجود ہیں ‘ تاہم سیاسی حلقے اس صورت میں بھی انتخابات کے التواء نہیں چاہتے بلکہ اس بات پر مصرہیں کہ انتخابات ہرصورت وقت مقررہ پرپایہ تکمیل تک پہنچ جانے چاہئے ‘ تازہ ترین خبر کے مطابق گزشتہ روز جمعیت کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان پرخود کش حملہ کرنے والی ایک سازش بے نقاب کرکے منصوبہ سازوں کوگرفتار کرلیا گیا ہے جس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سکیورٹی ادارے نہایت مستعد ہو کراپنی ذمہ داری نبھا رہے ہیں ‘ یہاں ماضی میں جھانکتے ہوئے ہمسایہ برادراسلامی ملک ایران کا ایک واقعہ اپنی توجہ دلا رہا ہے کہ جب چند برس پہلے ایران اورعراق کے درمیان کئی سال سے لڑائی ہو رہی تھی توایرانی پارلیمنٹ پردہشت گردانہ حملے میںپارلیمنٹ کی پوری بلڈنگ دھماکوں سے اڑا دی گئی تھی بلکہ تین سو سے زیادہ اراکین اس حملے میں جاں بحق ہو گئے تھے مگراسی ایران ‘ عراق جنگ کے دوران پورے ملک میں نئے انتخابات منعقد کرا کے سیاسی سرگرمیاں جاری رکھی گئیں ‘ پاکستان میں تو حالات اللہ کے کرم سے قابو میں ہیں ‘ سکیورٹی ادارے متحرک اور مستعد ہیں اس لئے انتخابات کے التواء کاکوئی جواز نہیں ہے پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا تین ماہ کے بعد حالات پرسکون ہونے اور دہشت گردانہ واقعات کے خاتمے کی کوئی گارنٹی ہے کسی کے پاس یعنی تین ماہ بعد یہ صورتحال تبدیل ہو جائے گی؟ جولوگ انتخابات کے التواء پرمصرہیں وہ ملکی معیشت پرپڑنے والے اس کے اثرات سے آنکھیں کیوں بند کئے ہوئے ہیں ‘ بہرحال دیکھتے ہیں کہ اس قرارداد کی ”پشت پناہی” کرنے والے کون ہیں اور وہ کیوں ملک میںآئینی بحران پیدا کرنے پر تلے ہوئے ہیں کیونکہ مارچ میں سینیٹ کی آدھی نشستیں خالی ہونے سے پارلیمنٹ ادھورا ہوجائے گا جوآئینی اور قانونی طور پر ملک کے مفاد میں نہیں ہو سکتا۔

مزید پڑھیں:  من حیث القوم بھکاری