ججز کے خلاف مہم کی تحقیقات

سوشل میڈیا پرسپریم کورٹ کے ججز کے خلاف گمراہ کن اورمذموم مہم کانوٹس لیتے ہوئے وزارت داخلہ نے جے آئی ٹی تشکیل دے دی ہے ‘ جو تحقیقات مکمل کرکے ملزموںکوکٹہرے میں لائے گی ‘ وزارت داخلہ کے نوٹیفیکیشن کے مطابق ایڈیشنل ڈی جی ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ جے آئی ٹی کے کنوینر ہوں گے ‘ اس کے علاوہ آئی بی اور آئی ایس آئی نمائندے اور ڈی آئی جی اسلام آباد پولیس اور پی ٹی اے کا نمائندہ بھی تحقیقاتی کمیٹی کے ممبر ہوں گے ‘ نوٹیفیکیشن کے مطابق جے آئی ٹی ملزمان کی شناخت کرکے قانون کے کٹہرے میں لائے گی اور مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے سفارشات دے گی ‘ جے آئی ٹی سپریم کورٹ کے لئے چالان پیش کرے گی ادھر وکلاء تنظیموں نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلام مہم چلانے والوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کردیا ہے ‘ اسلام آباد میں پاکستان بار اور سپریم کورٹ بار کے نمائندوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر دیا ہے ‘ اسلام آباد میں پاکستان بار اور سپریم کورٹ کے نمائندوں نے پریس کانفرنس میں پی ٹی اے اور ایف آئی اے سے ایسے عناصر کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ‘ صدرسپریم کورٹ بار کاکہنا تھا کہ ہم ججز کے ساتھ کھڑے ہیں فیصلے پر تنقید کرنے کی بجائے ججز کونشانہ بنایا جارہا ہے وکلاء ججز پر تنقید کوبرداشت نہیں کریں گے جب فیصلے میں درج ہے کہ انتخابات کرائے تو کرانے چاہئے تھے ‘ پی ٹی آئی نے اپنے ہی اراکین کو انٹر پارٹی انتخابات میں حصہ لینے سے روکا ‘ وکلاء اور قوم سے التماس ہے کہ تنقید فیصلے پر کریں لیکن ججز کی تضحیک نہ کریں چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی پاکستان بارکاکہنا تھا کہ ایک شخص کوعدالت نے معصوم کہا توایک حمایت کی ٹرولنگ شروع ہوگئی جب تک کسی پر جرم ثابت نہ ہو وہ قانون کی نظر میں معصوم ہی ہوتا ہے ‘ انہوں نے کہا کہ نو گھنٹے کی سماعت میں پی ٹی آئی کے وکلاء کی تیاری نہیں تھی ‘ اس فیصلے کا ایک پہلو اخلاقی اور ایک قانونی ہے’ اخلاقی طور پرپی ٹی آئی کو انتخابی نشان ملنا چاہئے’ قانونی طور پرانٹر پارٹی انتخابات کرائے بغیرریلیف ملنا ممکن نہیں تھا ‘ امر واقعہ یہ ہے کہ کسی بھی معاملے پرعدالتوں کے اندر فیصلے اصولی طور پر قانون کے دائرے کے اندر رہ کر کئے جانے چاہئیں اور یہی وجہ ہے کہ ججوں کے بارے میںایک بہت ہی مشہور مقولہ ہے کہ جج نہیں بولتے ان کے فیصلے بولتے ہیں ان فیصلوں پر کوئی شخص تنقید یا تبصرہ کر سکتاہے تاہم اگر یہ تنقید یا تبصرہ فیصلے کی بجائے ججز کی شخصیت پر کیا جائے تو اسے اخلاقیات کے کسی بھی اصول کے تحت درست قرار نہیں دیا جا سکتا ‘ پی ٹی آئی کے انتخابی نشان کے حصول کے لئے پارٹی کے وکلاء نے سپریم کورٹ میں دلائل کے دوران جو کمزوری دکھائی اور عدالت کی لائیو کوریج میں ججز کے سوالات کاکوئی مدلل جواب دینے میں جس طرح ناکام رہے یعنی انٹر پارٹی انتخابات پراٹھنے والے سوالات ‘ اعتراضات اور پارٹی کے چند کارکنوں کی جانب سے دعوئوں کا کوئی جواب ان سے نہیں بن پایا بلکہ دوران بحث انہوں نے تسلیم کیا کہ انٹرا پارٹی انتخابات کرانے میں ان سے کمزوریاں سرزد ہوئیں ‘ اس کے بعد قانونی طور پر آنے والے متفقہ فیصلہ خود وکلاء کی بہت بڑی تعداد اور تنظیمیں درست قرار دے رہی ہیں جبکہ اگر بقول پاکستان بار کے اس کے اخلاقی پہلو کو فاضل عدالت سامنے رکھ کر فیصلہ دیتی تواس سے ہماری دانست میںمزید پیچیدگیاں پیدا ہوتیں اور آئندہ کوئی بھی سیاسی جماعت انٹرا پارٹی انتخابات کرانے کی نہ ضرورت محسوس کرتی نہ عدالتوں کے استفسار پراسے اہمیت دینے پر تیار ہوتی ‘ بدقسمتی مگر یہ ہے کہ پی ٹی آئی کو ماضی میں عدالتوں سے جس قسم کے ریلیف ملتے رہے ہیں ان آسانیوں اور سہولتوں کی پارٹی کے رہنمائوں اور ورکروںکوپڑنے والی عدالتوں کی وجہ سے ان کی یہی خواہش تھی کہ اس معاملے پر بھی قانون سے ہٹ کر بس”اخلاقی” طور پر پارٹی کے حق میں فیصلہ دیا جائے ‘ مگر اب چونکہ وہ مبینہ طور پر ”سہولت کاریوں” والی عدالتوں کا دور نہیں رہا اس لئے قانون کے تقاضوں کے عین مطابق کوئی بھی فیصلہ پارٹی رہنمائوں کے نزدیک”قابل قبول” نہیں ہوسکتا ‘ اس لئے پارٹی کے زیر اثر سوشل میڈیا پر عدالتی فیصلے کے برعکس قابل احترام ججز کے خلاف مہم شروع کر دی گئی ہے جو دنیا کے کسی بھی ملک میں قابل برداشت کے زمرے میں شامل نہیں ہو سکتی ‘ اس لئے حکومت نے ججز کے خلاف مہم چلانے والوں کی نشاندہی کرکے ملزموں کوقانون کے دائرے میں لانے کے لئے جے آئی ٹی کا جوفیصلہ کیا ہے وہ بروقت ہے اور پوری قوم اس فیصلے کے پیچھے کھڑی ہے ‘ اس سلسلے میں جلد از جلد تحقیقات مکمل کرکے ملزموں کوکیفر کردار تک پہنچایا جائے تاکہ آئندہ کسی کو بھی عدلیہ پر کیچڑ اچھالنے کا موقع نہ ملے۔

مزید پڑھیں:  مہنگائی میں کمی کے عوامل