مہنگی ادویات کا بیوپار

خیبر پختونخوا میںایک جانب جہاں جعلی ،غیر معیاری اور سمگل شدہ ادویات کی بھر مار ہے وہاں باربار ضروری ادویات کی قلت پیدا کرکے مہنگے داموں فروخت اور قیمتوںمیں اضافے کی راہ ہموار کرنے کا یکے بعد دیگرے سلسلہ سامنے آتا ہے جس میں متعلقہ حکام کی ملی بھگت اور ناکامی کوئی پوشیدہ امر اس لئے نہیں کہ ان عناصر کے خلاف کبھی بھی ٹھوس اقدام نہیں ہوتا، ستم بالائے ستم یہ کہ ایک جانب جہاں ادویات کی دکانوں پر ان ادویات کی ناپیدگی ظاہر کی جاتی ہے وہاں نمک منڈی میں ہول سیل کی دکانوں اور گوداموں میں یہ ادویات وافردستیاب ہوتی ہیں،ایسے میں ادویات کی ناپیدگی حقیقی طور پرگمراہ کن پراپیگنڈہ اور مہنگے داموں فروخت کی سوچی سمجھی سازش ہی ہوتی ہے جس میں متعلقہ حکام کی ملی بھگت بعید نہیں بلکہ ان کی معاونت اور ملی بھگت کے بغیر تو ایسا ممکن ہی نہیں، ایک مرتبہ پھر خیبرپختونخوا میں میڈیسن مارکیٹوں میں نمونیہ بخار کے علاج کیلئے ڈاکٹروں کی جانب سے تجویز کی جانے والی ادویات کی مصنوعی قلت پیدا کرکے اس کی قیمت میں ہزاروں روپے کا اضافہ کر دیا گیاہے اور دس گولیوں کا سٹرپ15سو روپے پر فروخت ہونے کی شکایات ہیں ۔ دوسری جانب سرکاری ہسپتالوں اور نجی کلینکس پر بھی ادویات موجود نہیں جبکہ نمونیہ سے بچائو کی ویکسین کو بھی مارکیٹ میں شارٹ کردیاگیاہے ۔اس امر کی تحقیقات ہونی چاہئے کہ نمونیہ کے مریضوں کی بڑی تعداد سامنے آنے کے بعد کس کمپنی اور تھوک فروشوں نے ملی بھگت کی اور ادویات ناپید کر دیں، ان کے خلاف بلاتاخیر سخت کارروائی ہونی چاہئے اور ثابت کیاجائے کہ حکومتی ادارے فعال اور اپنا کام کر رہے ہیں۔

مزید پڑھیں:  مہنگائی میں کمی کے عوامل