واہگہ کا بورڈ تفتان پھاٹک پر؟

پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کے بادل بڑھتے اور ایک ممکنہ جنگ میں ڈھلتے جا رہے تھے کہ اچانک ایران نے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بلوچستان پر میزائلوں کی بارش کر دی۔ایران نے دعویٰ کیا کہ یہ حملہ ایرانی شدت پسند تنظیم جیش العدل کے ٹھکانے پر کیا گیا مگر اس حملے میں دومعصوم پاکستانی بچیاںجاں بحق اور تین زخمی ہوگئیں ۔جیش العدل نام کا کوئی عسکریت پسند نہ تو اس حملے میں مارا گیا اور نہ ایران اس کا ثبوت پیش کر سکا ۔پاکستان نے اس حملے پر فوری ردعمل دکھا یا اور ایران سے اپنا سفیر واپس بلاتے ہوئے ایرانی سفیر کو پاکستان نہ آنے کی ہدایت کی اور دونوں طرف سے وفود کی سطح کے دورے بھی منسوخ ہوگئے ۔دوسرے ہی روز پاک فضائیہ نے ایران کے اندر گھس کر اپنے شدت پسندوں کو نشانہ بنایا اور یوں حساب برابر ہوگیا ۔ایرانی میڈیا اور حکومت نے اس حملے کی تشہیر کرنے کے باوجود اسے پاکستان کی بجائے اپنے مطلوب دہشت گردوں پر حملہ قرار دیا جبکہ پاکستان نے بھی جواباََ ایران میں پر کئے جانے والے حملے کو ”مرگ بر سرمچاری ” آپریشن کا نام دیا گویاکہ یہ پاکستان کے اپنے شہریوں اورعسکریت پسندوں پر ایران کی حدود میں کاروائی تھی ۔امریکہ نے ایران کے حملوں کی مذمت کی جبکہ چین نے دونوں ملکوں سے تحمل سے کام لینے کی اپیل کی ۔ایران اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کی اس لہر کو ان دونوں غیر ملکی طاقتوں کے بیانات سے الگ کر کے دیکھا ہی نہیں جا سکتا ۔ایران نے پاکستان کی حدود میں حملہ اس وقت کیا جب ایران اور پاکستان کی بحریہ سمندر میں مشترکہ مشقیں کر رہی تھیں۔پاکستان کے جوابی حملے پر عمومی طور پر پاکستان میں خوشی کا اظہار کیا گیا ۔حالیہ کچھ عرصہ سے پاکستان اور افغانستان میں جس جنگ کے خدشات ظاہر کئے جارہے تھے اور اگر ایسا ہوجاتا تو یہ پاکستان کی بھارت کے علاوہ کسی دوسرے ہمسائے کے ساتھ پہلی جنگ ہوتی اور یہ ایک نئی تاریخ ہوتی ۔یہ کہانی تو شروع نہیں ہو سکی مگر ایران نے آگے بڑھ تاریخ کو ایک نئے انداز سے رقم کرنے کا فیصلہ کیا گویاکہ بھارت کے علاوہ پاکستان کی جس ملک کے ساتھ فضائی کھٹ پھٹ ہوئی وہ ایران ہے۔ایسے میں جب خطے میں ہر طرف جنگوں کا جنگل سااُگ رہا ہے ایران نے اچانک پاکستان پر پل پڑنے کا فیصلہ کیوں کیا؟کیا ایران اسی طرح ٹریپ ہوا جس طرح صدام حسین کویت حملے میں دام ِ فریب میں آیا تھا؟ایران کے میزائل حملے سے کچھ ہی لمحے پہلے بھارت کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر ایران میں موجود تھے اور وہ ایران کے ساتھ تعلقات کو مزید بلندیوں تک لے جانے کے عہد وپیماں کر رہے تھے ۔جن میں چاہ بہار بندرگاہ سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہونے اورفارسی زبان کو بھارت کی کلاسیکل زبانوں میں شامل کرنے جیسے معاہدات شامل تھے ۔بھارتی وزیر خارجہ اس سے کچھ ہی دن پہلے امریکہ کا دورہ کر چکے تھے جہاں ان کی امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن سے تفصیلی ملاقات ہو چکی تھی ۔ڈیووس میںعالمی معاشی فورم پر تقریر کرتے ہوئے انٹونی بلنکن ہندوستان میں انتہاپسندوں کے طاقت پکڑنے کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں یہ کہہ رہے تھے کہ وہ ہندوستان کو ایک کامیاب ملک بنتا دیکھ رہے ہیں جس میں وزیر اعظم مودی کا رول انتہائی اہم ہے۔گویا کہ وہ بھارت میں انتہاپسندی سے متعلق سوال کو نظر انداز کرتے اور پہلو بچاتے ہوئے ہندوستان اور نریندرمودی کی تعریف کررہے تھے ۔اس خوش کن ماحول سے بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر ایران پہنچے تو ان کی تہران سے روانگی کے کچھ ہی لمحوں بعد ایران نے پاکستان پر حملہ کر دیا ۔ عین ممکن ہے کہ ایس جے شنکر امریکی قیادت کی طرف سے ایران کیلئے کوئی شاخ ِ زیتون لے کر آئے ہوں کہ حوثیوں پر حملوں کے باوجود امریکہ ایران کے ساتھ کشیدگی کو ایک حد سے آگے بڑھانے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ پاکستان میں ایرانی حملے میں بالاکوٹ حملے کی طرح ایک کوااور چند درخت تو کام نہیں آئے مگر چند معصوم پاکستانی بچوں کی جانیں چلی گئیں ۔ یوں ایران نے اس حملے سے خطے میں وہ نئی تاریخ رقم کرنے کا راستہ اختیار کیا جو کئی برس سے ہموار کیا جا رہا تھا اور ایران نے اس موقع پر اپنا کندھا پیش کر کے ایک حماقت کی ۔اب بھارت کے بعد پاکستان کی اس نوعیت کی کشیدگی اور جھڑپ میں ایران نامی ایک نئے کیریکٹرکا اضافہ ہوگیا ۔ایران کی طرف سے اس حملے کا جواز اس لحاظ سے بھی نہیں بنتا تھا کہ دونوں ملکوں کی بحریہ مشترکہ مشقیں بھی کر رہی تھیں اوریوں لگتا ہے کہ ایران کو کسی نے فوری طور پر اس جال میں پھنسادیا ہے ۔اس عمل کو بھارتی وزیر خارجہ کے دورے سے الگ کر کے بھی نہیں دیکھا جا سکتا ۔بہت عرصے سے یہ کوششیں جا ری تھیں کہ پاکستان اپنا دشمنی کا بورڈ اب واہگہ سے اُتار کر طورخم یا تفتان پھاٹک پر لگا دے ۔گریٹ گیم میں پاکستان اور بھارت کو اس انداز سے تجارت اور کھلی سرحدوں کے ساتھ شیر وشکر کرنا ہے جس میں من وتو کی تمیز باقی نہ رہے اور حد تو یہ کہ بھارت میں ایک انتہا پسند حکومت کے باوجود اس پالیسی پر اصرار جار ی ہے اور انتہا پسندی کے غلبے کا سوال کس قدر غیر اہم ہو کر رہ گیا اس کا واضح اظہا رانٹونی بلنکن کے ڈویوس کانفرنس میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں ہے ۔پاکستان اور بھارت کی سرحدوں پر امن کی کونپلیں کھل اُٹھی ہیں دونوں کے درمیان رنجشوں اور تلخیوں کو کم کیا جا رہا ہے اورمستقبل میں اس صورت حال میں نمایاں تیزی دیکھی جا ئے گی ۔ایسے میں کشیدگی کے ساتھ رخ اور ہدف اب زاہدان اور طورخم پھاٹک کی طرف مڑنے لگے ہیں ۔دوستی اور دشمنی کے نئے کردار اور میعار تخلیق ہونے لگے ہیں ۔ایران نے نادانستہ یا کسی فرمائش پر اس ایجنڈے کو ایک راستہ دے دیا ۔ پاکستان کی طرف سے جوابی کاروائی اس لحاظ سے ضروری تھی کہ یہ بھارت کیلئے سرجیکل سٹرائیکس کا مستقل دروازہ کھولنے کے مترادف تھا ،بھارت جو ممبئی حملوں کے بعد سے کبھی مظفرآباد تو کبھی مریدکے میں علامتی حملوں کی فرمائش کرتا چلا آرہا تھا اس رسم وریت سے اپنے ماضی کے خوابوں کو پورا کرنے کا راستہ اپنا سکتا تھا ۔یہ حقیقت میں ایران کے پردے میں بھارت کو پیغام ہے کہ دوبارہ کسی بھی سرجیکل سٹرائیک کا نتیجہ بالاکوٹ کی صورت میں ہی برآمد ہو سکتا ہے ۔ایران نے بہرحال بیٹھے بٹھائے ایک بین الاقوامی منصوبے کوراہ دینے کا فیصلہ کیا اور اس کے جواب میں ایران کو کہاں کہاں کس انداز کاریلیف ملتا ہے اس کا اندازہ بھی جلد ہوجائے گا ۔

مزید پڑھیں:  مہنگائی میں کمی کے عوامل