قومی سلامتی کمیٹی کامدبرانہ فیصلہ

ایران کی جانب سے پاکستانی حدود میں سہواً یا عمداً کارروائی کے باعث دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کی جو فضا پیدا ہوئی تھی پاکستان کے درجواب آں غزل کے بعد ایرانی وزیر خارجہ کی جانب سے ایران کے اس عندیہ کے بعد کہ ایران اس تنائو کوختم کرنے کا خواہاں ہے معاملے کو سلجھانے اور معمول کے تعلقات کی بحالی میں رکاوٹ دور ہونا فطری امر تھا جس کے بعد اب دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی اور سفارتی تعلقات کے معمول پر آنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی زیر صدارت اسلام آباد میں قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں قومی سلامتی کے امور پر غورکے لئے منعقدہ اجلاس میں کہا گیا کہ ایران ایک ہمسایہ اور برادر مسلم ملک ہونے کے ناطے دونوں ممالک کے درمیان موجودہ متعدد مواصلاتی ذرائع کو علاقائی امن اور استحکام کے وسیع تر مفاد میں ایک دوسرے کے سکیورٹی خدشات کو دور کرنے کے لئے باہمی طور پر استعمال کیا جانا چاہیے۔ اعلامیہ کے مطابق اجلاس نے اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی اصولوں کے مطابق تمام ممالک کی خودمختاری اور علاقائی سا لمیت کے لئے پاکستان کے عزم کو متاثر کیا۔ کمیٹی نے اس عزم کا اعادہ بھی کیا کہ دہشت گردی کی لعنت سے اس کی تمام شکلوں اور مظاہر میں آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔ ایران اور پاکستان کے درمیان دوطرفہ تعلقات کی روایت بھی کافی مستحکم رہی ہے۔ پاکستان اور ایران کی سرحد سے جڑے امور کوئی بھی ملک یک طرفہ طور پر نہیں چلا سکتا۔ بالخصوص جب دنوں جانب سے عسکریت پسندوں کے حملوں کا خدشہ موجود رہتا ہو۔ ویسے تو ایران پاکستان کی سرحد پر کبھی کبھار جھڑپیں ہو جاتی ہیں لیکن ان کو زیادہ سنجیدہ نہیں لیا جاتا اور وہاں موجود دونوں جانب کی باڈر سکیورٹی فورسز کے حکام ان معاملات کو حل کر لیتے ہیں لیکن ایران کا حالیہ حملہ بڑا واقعہ تھا۔ ایران کے اس اقدام کی وجہ کی بھی سمجھ نہیں آئی بہرحال اس واقعے کے بعد پاکستان کی حکومت اور فوج پر داخلی دبائو تھا کہ اس کا مسکت جواب دینا ضروری ہے۔ بنا بریں ایسا ہی کیا گیا اوراس کے بغیر چارہ بھی نہ تھا مقام اطمینان یہ ہے کہ حساب برابر کرنے کے بعد مقابلہ بازیکی نوبت نہ آئی اور معاملات سلجھائو کی سمت ہیں تاہم سوال یہ ہے کہ ایران جو کہ اس وقت مشرق وسطی کی غیرمعمولی صورتحال میں الجھا ہوا ہے، اسے ان حالات میں ایسے غیرمعمولی اقدام کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ملکوں کے درمیان بعض معاملات کی تہہ تک پہنچا نہیں جا سکتا ایرانی اقدام کس حد تک سوچا سمجھا منصوبہ تھا اس کے مقاصد کیا تھے آیا یہ کسی غلط فہمی کا نتیجہ تھا یا اس کے پس پردہ کوئی حکمت او رکہانی ہے ان تمام سوالات سے قطع نظر قابل اطمینان امر یہ ہے کہ دونوں ہمسایہ ملکوں کے درمیان جس قدر اچانک اور شدت سے کشیدگی پیدا ہوئی تھی اسی رفتار سے اس کے جلد معمول پر آنے کا بھی امکان ہے ایرانی وزیر خارجہ کا بیان اور پاکستان کے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے مندرجات کے بعد معاملات کے حل ہونے کا یقین ہے صرف اس ضمن میں رسمی عملی اقدامات ہونا باقی ہیں ۔ اس کے باوجود بہرحال یہ ایک اہم واقعہ تھا جس کے اثرات دونوں ممالک کے تعلقات پرسوالیہ نشان کاباعث ضرور ہیں کہ ایران اور پاکستان کے درمیان ایک ایسے وقت کشیدگی کی نوبت کیوں آئی جب غزہ میں مسلمانوں پرمظالم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں نیز ایران خطے میں پھیلے اپنے مفادات کے حوالے سے بھی خاصا پر عزم ہے بین ا لاقوامی طور پر ایران اور پاکستان کے مفادات میں بہرحال بعد کی کیفیت ضرور ہے چین ‘ روس اور ترکی کی جانب سے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں کمی لانے کی پس پردہ اور علانیہ مساعی اہمیت کی حامل رہیں وگرنہ بعض عالمی طاقتوں نے تو پھونکیں مارنا شروع کر دیاتھا ان دوست ممالک کی سنجیدہ اور تیز مساعی نہ ہوتیں اور دونوں ملک کشیدگی بڑھانے کے اقدامات سے ایک قدم پیچھے نہ ہٹتیں تو خطے میں ایک اور پریشان کن صورتحال پیدا ہو سکتی تھی جس سے تحمل کا مظاہرہ کرکے بچا گیا ۔ دونوں ممالک کے درمیان یہ نوبت کیوں آئی اس کی وجوہات وعوامل کا بہرحال جائزہ لیا جانا چاہئے اور کوشش ہونی چاہئے کہ آئندہ اس طرح کی نوبت نہ آئے اور دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان بعض معاملات پراختلافات صورتحال کوکشیدہ تر بنانے کی حد تک بگڑ نہ جائیں۔

مزید پڑھیں:  مہنگائی میں کمی کے عوامل