اک گام احتیاط!

آتشزدگی سے متاثرہ پشاور صدرکی موبائل مارکیٹ کے متاثرہ کاروباری حضرات کی پریشانی اورمارکیٹ کھولنے کے حوالے سے انتظامیہ پردبائو فطری امر ہے لیکن انتظامیہ کو شایداس قدر جلدی عمارت کی صفائی اور پانی کی نکاسی میں کچھ وقت لگ سکتا ہے، بہرحال دیر یا بدیر یہ کام مکمل ہوگا نیزعمارت کوقابل استعمال قرار دینے کی رپورٹ بھی اپنی جگہ اطمینان کا حامل امر ضرور ہے، اس کے باوجود چونکہ عمارت کئی گھنٹوں تیز آگ اور درجہ حرارت کا شکار رہی ہے بنا بریں ازروئے احتیاط اس رپورٹ کاایک مرتبہ پھر ماہرین کی ایک اور ٹیم سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کہیں عمارت تیزترین درجہ حرارت کے باعث اندرونی طور پر شکستگی اور خستہ حالی کا شکار تونہیں ہوئی، تیزدرجہ حرارت میں عمارت میں استعمال شدہ سریا کے پگھل جانے اور مڑ جانے کا جہاں امکان ہے وہاں اینٹوں پربھی اثرات کا ایک مرتبہ پھربرائے حفظ ماتقدم جائزہ لیاجانا ضروری ہے تاکہ ممکنہ خطرات اور امکانات و خدشات کا تدارک ہوسکے ۔اس طرح کی متاثرہ عمارت کو قابل استعمال قرار دینے میں احتیاط کا مظاہرہ بہتر ہو گا تاکہ خدانخواستہ” آسمان سے گرا کھجور میں ا ٹکا ”والی صورتحال پیش نہ آئے چیف سیکرٹری نے جن حفاظتی اقدامات اختیارکرنے کی ہدایت کی ہے وہ بعد از خرابی بسیار کے زمرے میں آتے ہیں، اگر انتظامیہ ومتعلقہ حکام پہلے ہی حفاظتی اقدامات اختیار کروانے پر توجہ دیتے تو اس حادثے سے بچنا ممکن ہوتا یاپھر کم از کم نقصانات کو کم کیا جا سکتا تھا ،خود کاروباری افراد کو بھی کسی عمارت میں کاروبار شروع کرتے وقت اس طرح کے امکانات اور حفاظتی اقدامات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے جبکہ محولہ عمارت کی تعمیر کرنے والے نقشہ کی منظوری و اجازت دینے والوں کے خلاف تحقیقات و اقدامات نہ ہوئے تو اسی طرح کے واقعات کے امکانات میں کمی لانا ممکن نہ ہو گا۔

مزید پڑھیں:  اب نہیں تو کب ؟

انسداد منشیات کیلئے بھرپور مہم کی ضرورت
ضلعی انتظامیہ کی جانب سے طالب علموں کو جدید طریقے سے تمباکو نوشی سے بچانے اور اس رجحان کی حوصلہ شکنی کے حوالے سے اقدامات پر اطمینان کا اظہار نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں لیکن مشکل امر یہ ہے کہ جدید طریقوں سے تمباکونوشی اور منشیات کے استعمال میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے جس کی واحد وجہ اس کی با آسانی دستیابی اور میسر آنا ہے، جب تک ان ذرائع کو مسدود نہیں کیا جائے گا اس وقت تک تعلیمی اداروں میں بطور خاص اور نوجوانوں میں بالعموم نشہ آور اشیاء کی طرف رجحان کا خاتمہ ممکن نظر نہیں آتا، مستزادافسوسناک صورتحال یہ ہے کہ برسرزمین حقائق سے منشیات فروشوں کے خلاف کوئی بڑی مہم نظر نہیں آتی،اس امر کے اعادے کی ضرورت نہیں کہ صوبائی دارالحکومت پشاور اور صوبہ بھر میں منشیات کا استعمال اور منشیات کی سپلائی کا دھندا زور و شور سے جاری ہے ،گھوم پھر کرمنشیات فروخت کرنے والے آزادی سے اپنا کام کر رہے ہیں، نشے کے عادی افراد نشے کی لت پوری کرنے کے لئے سٹریٹ کرائم بھی کرتے ہیں ،چوری اور دیگر واقعات میں بھی یہ عناصر ملوث پائے جاتے ہیں اس کے باوجود ان عناصر کی بیخ کنی کا وہ عزم ہی نظر نہیں آتا جس کی ضرورت ہے ۔ توقع کی جانی چاہئے کہ انسداد منشیات مہم مؤثر طور پر شروع کی جائے گی اور اس میں ملوث ہر سطح کے عناصر کے خلاف سنجیدہ اور نظر آنے والے اقدامات سے باور کرایا جائے گاکہ متعلقہ ادارے اپنا کام کر رہے ہیں۔

مزید پڑھیں:  اساتذہ کی جان خطرے میں