کہیں تو پانیوں کے سلسلے ہوں

ہمیں تو شاید وہ بچہ ڈھونڈنا پڑے گا جس کے تیقن کی انتہا یہ تھی کہ جب بستی میں خشک سالی ختم ہونے میں نہیں آرہی تھی اور فیصلہ کیا گیا کہ اللہ کریم کی رحمت کو پکارنے کے لئے گائوں سے با ہر نماز استسقا کا اہتمام کیا جائے تو وہ بچہ نماز پڑھنے کے لئے جاتے ہوئے گھر سے چھتری بھی اٹھا کر لے گیا ‘ حالانکہ موسم کے تیور کسی بارش برسنے کے آثار دکھانے سے نہ صرف عاری تھے بلکہ اچھی خاصی دھوپ نکلی ہوئی تھی ‘ اس لئے جہاں دوسرے لوگ بے دلی کے ساتھ کھلے میدان کی بابت رواں تھے وہاں اس ”چھاتہ” بردار بچے کی معصومیت اور سادگی پر دل ہی دل میں ہنس بھی رہے تھے’ مگر شاید اللہ کریم کو اس بچے کی یہ ادا اس قدر بھائی کہ نماز ابھی اختتام کو بھی نہیں پہنچی تھی کہ جل تھل کا سمان ہو گیا اور لوگ بارش میں بھیگتے ہوئے اللہ کی کرم فرمائیوں کا شکر ادا کرتے ہوئے واپس روانہ ہوئے ‘ اب ہماری صورتحال یوں ہے کے بقول ساحر لدھیانوی
ہم میں کوئی بھی جہاں نور و جہانگیر نہیں یعنی
سرابوں سے اٹا ہے سارا صحرا
کہیں تو پانیوں کے سلسلے ہوں
رحمت خداوندی پر ایمان رکھنے والے بچے اب شاید ہمارے ہاں پیدا ہونے بند ہو گئے ہیں اور اس کی وجہ ہمارا اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی عادت کا (ممکنہ) خاتمہ ہے’ اوپر بیان کردہ کہانی کو آپ لطیفہ سمجھیں یا پھر عبرتناک واقعہ یہ آپ کی اپنی صوابدید ہو سکتی ہے ، جبکہ اس لطیفہ نما عبرتناک واقعے کی یاد اس لئے آئی کہ وزارت مذہبی امور نے ملک کے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ ملک بھر میں نمازاستسقا کا اہتمام کریں اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتے ہوئے باران رحمت کی دعا کریں۔ وزارت مذہبی امور سے کیا اپیل میں پوشیدہ خواہش اپنی جگہ لیکن جس ملک میں سرکاری سطح پر اپنے عوام پر رحم فرمانے کے معاملے پر سوال اٹھ رہے ہوں اور وہ جو کہا جاتا ہے کہ تم انسانوں پر رحم کھائو اللہ تبارک و تعالیٰ تم پر رحم کرے گا ، تو اس نصیحت سے کنی کترانے والی سرکار کی ایک وزارت مذہبی امور کس برتے پر عوام سے توقع لگا کر باران رحمت متمنی ہے’ ابھی شاید چار یا پانچ روز پہلے ایک خبر آئی تھی کہ وفاقی حکومت نے ملک میں پیاز کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے متعلقہ سرکاری حلقوں کی اس تجویز کو رد کر دیا ہے کہ پیاز کی برآمد روکی جائے ‘ ایک صرف پیاز پر ہی کیا موقوف کہ جس کے نرخ تین سو ساڑھے تین سو روپے کلو تک جا پہنچے ہیں اور عوام پریشان ہیں کہ اس صورتحال سے کیسے نمٹا جائے کیونکہ سالن میں پیاز کا استعمال کیا جائے ‘ آملیٹ میں سے پیاز خارج کر دینے سے جو کچھ پکے گاکیا اسے آملیٹ کا نام دیا جا سکتا ہے’ جبکہ یارلوگوں نے چالیس روپے کے انڈے کے خلاف بھی سوشل میڈیا پر انڈوں ‘ مرغیوں کے بائیکاٹ کا ٹرینڈ چلا دیا ہے ‘ اس لئے اگر آملیٹ سے پیاز کے ساتھ انڈے کو بھی خارج کر دیا جائے تو پکنے والی چیز کو کیا نام دیا جا سکے گا؟ خیرانڈے کے بارے میں تو معلوم نہیں کہ وہ بھی ایکسپورٹ ہو رہا ہے یا نہیں یا پھر شدید سردی کی وجہ سے مرغیاں بھی کڑک ہوگئی ہیں اور انہوں نے انڈے دینے ہی بند کر دیئے ہیں ‘ البتہ پیاز کی برآمد بند نہ ہونے اور اس کاروبارسے وابستہ آڑھتیوں ‘تاجروں اور ایکسپورٹروں کو عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کی کھلی اجازت دینے کی وجہ سے عوام کی جو صورتحال ہو رہی ہے ‘ اس کو توجہ دینے سے انکار کرنے والی سرکار اپنے عوام پر رحم کھانے سے انکار کے بعد اپنی ایک وزارت یعنی مذہبی امور کی وساطت سے نماز استسقا کی اپیل کس منہ سے کر رہی ہے اور کیا اسے یقین ہے کہ نماز پڑھنے سے یہ خشک سالی ختم ہو سکے گی؟۔
تمہاری بے رخی کازہر رگ رگ میں نمایاں ہے
کبھی ہم پر بھی تو اترے تمہارے پیار کا موسم
تمہاری دوستی کتنے نقاب اوڑھے گی چہرے پر
محبت سے زیادہ ہے یہ کاروبار کا موسم
وزارت مذہبی امور کے ذمہ داروں کو پہلے اپنی سرکار سے یہ مطالبہ کرنا چاہئے کہ خشک سالی کی وجہ سے ملک میں اشیائے خورد ونوش کی ہلے ہی کمی ہے ‘ ہر سبزی کم ازکم ڈیڑھ سو روپے کلو سے نیچے نہیں ملتی ‘ اس پرپیاز برآمد کرکے ملک کے عوام پر مہنگائی کاعذاب مسلط کرنے پرجس نظرثانی کی ضرورت ہے تاکہ ملک کے اندر مصنوعی قلت کا خاتمہ ہو سکے ‘ اس پر توجہ دینے کی بجائے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے کیا سرکار کو اپنے فیصلے پر توجہ نہیں دینی چاہئے کہ تم اللہ کے بندوں پر رحم کرو تاکہ اللہ تم پر رحم کھائے ‘ جبکہ عوام کی صورت یہ ہے کہ
گلوں کی پتیاں سب جھڑ گئی ہیں باد صرصرسے
ہے کلیوں کو یہ غم بکھرے گا اب پندار کا موسم
وزارت مذہبی امور کو عوام سے نماز استسقا کی اپیل کرنے سے پہلے ملک میںاس بچے کی تلاش کرنی چاہئے جونماز پڑھنے کے لئے جاتے ہوئے اپنے پورے تیقن کے ساتھ اپنی چھتری بھی ساتھ لے جائے ‘ وگر نہ موسم کے حوالے سے پیشگوئی کرنے والے ادارے محکمہ موسمیات نے آئندہ چند روز میں بارش اور برفباری کی خبر دیتے ہوئے اسے صرف ملک کے بالائی حصوں تک محدود رکھا ہے تاہم دعا کرنے سے صورتحال بدل بھی سکتی ہے کیونکہ عین ممکن ہے کہ باران رحمت کے لئے ہاتھ اٹھانے والوں میںایسی ہستیاں بھی کہیں چھپ کرکسی کونے کھدرے میں ہاتھ اٹھا کر سرکار سے لے کر ہم گناہگاروںتک پر رحم کرنے کی دعا مانگ رہے ہوں اور اللہ اپنے ان برگزیدہ اور نیک بندوں کے طفیل ملک میں بارشیں برسا کر ہماری مشکلات ختم کرنے پر راضی ہوجائے ‘ کہ بقول طاہر حنفی
کیسے مرے خلوص کے سجدے قبول ہوں
میں گھرگیا ہوں وقت کے نقلی خدائوں میں
٭٭٭٭٭

مزید پڑھیں:  بار بار کی خلاف ورزیاں