دیوانے کی بڑ

افغانستان کے قائم مقام وزیر برائے سرحدی و قبائلی امور نے پاک افغان سرحد کو تصوراتی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان کی پاکستان کے ساتھ کوئی مخصوص سرحد (باضابطہ سرحد) نہیں ہے۔ ان کاعاجلانہ استدلال تھا کہ اسلام آباد اور کابل کے درمیان سرحد ابھی تک واضح نہیں ہے، دونوں ممالک کے پاس تصوراتی لکیریں ہیں۔ دریں اثنا پاکستان میں مقیم رجسٹر ڈافغان مہاجرین کے قیام کی مدت آئندہ مہینے ختم ہو رہی ہے جس کے بعد مذکورہ مہاجرین کو بھی واپس بھجوانے کی منصوبہ بندی کی جائے گی۔ واضح رہے کہ پاکستان میں قیام پذیرافغان مہاجرین کی مدت31دسمبر مقرر تھی تاہم وفاقی حکومت نے اس مدت میں دو ماہ کی توسیع کی تھی یہ توسیع اگلے ماہ ختم ہونے جارہی ہے اور اگر دوسری مرتبہ قیام کی مدت میں توسیع نہیں کی گئی تویکم مارچ سے مذکورہ خاندانوں کے انخلا ء سے متعلق پالیسی وضع کی جائے گی۔ افغان رہنمائوں اور بعض حکام کے اس طرح کے حقائق کے برعکس تصوراتی اور نفسیاتی بیانات کے باعث ہی دونوں ملکوں کے تعلقات اس قدرمتاثر ہوئے کہ پاکستان نے چالیس سال میزبانی کے بعد افغان مہاجرین کوواپسی کی راہ دکھا دی اب جبکہ توسیع شدہ مدت بھی اختتام پذیر ہو رہی ہے جس کے بعد رجسٹرڈ افغان مہاجرین کو بھی واپس بھجوایا جا سکتا ہے اس طرح کا غیر ذمہ دارانہ بیان خود اپنے پیر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہو گا اس سے بڑھ کر حقیقت کیا ہو گی کہ باقاعدہ طور پر سرحدی لکیر کھینچ کر نقشہ ہی تیار نہیں کیاگیا ہے بلکہ پاکستان نے باڑ لگا کر سرحد محفوظ اور باقاعدہ بنانے کا بھی اہتمام کر چکا اس کے باوجود اسے تسلیم نہ کرنا سورج کو چراغ دکھانے کے عمل کے سوا کچھ نہیں اس طرح کے بیانات کاکوئی فائدہ نہیں ہو گا البتہ دونوں ملکوں کے تعلقات پرفرق ضرور پڑ سکتا ہے بہتر ہوگاکہ افغان حکومت حقائق کو تسلیم کرے اور ایک لاحاصل بحث اور موقف سے گریز کرکے اپنے عوام کی خدمت پر توجہ دے ۔
اس مرتبہ انتظامیہ ہاتھ جوڑنے سے گریز کرے
پشاور میںایک مرتبہ پھر روٹی کی قیمت میں مزید 5روپے کا اضافہ کرنے کی تیاری کر لی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق انتظامیہ کی جانب سے روٹی کی قیمت میںپانچ روپے کے اضافے کے فیصلے کے حوالے سے نانبائی ایسوسی ایشن کے عہدیداروں اور ضلعی حکومت کے نمائندوں کے درمیان بات چیت ہوئی ہے جس میں پانچ روپے قیمت بڑھانے پر اتفاق کیاگیاہے تاہم سرکاری سطح پر اس تجویز کی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔ اس فیصلے پر عملدر آمد کی صورت میں پشاورمیں سادہ روٹی کی قیمت 20 روپے سے بڑھ کر 25 روپے ہو جائے گی اور اس کا وزن بھی 150 گرام ہو جاء گا۔ پشاور میں6ماہ قبل بھی ضلعی انتظامیہ کی جانب سے نانبائیوں کے لئے نرخنامہ جاری کیا گیا تھاتاہم نانبائی ایک مرتبہ پھر روٹی پانچ روپے مہنگی کرنے پر تل گئے ہیں۔صوبائی دارالحکومت میں بالخصوص اور صوبہ بھر میں بالعموم روٹی کے نام پر پاپڑ کی فروخت سے صرف نظر اختیار کرنے والی انتظامیہ کا نانبائیوں کے دبائو میں آنا بعید نہیں ایک جانب قیمت میں اضافہ اور دوسری جانب کم وزن روٹی کی فروخت کوئی ایک مسئلہ ہوتا تو صرف اس کارونا رویا جاتا یہاںیک نہ شد دوشدوالی صورتحال ہے گھروں میں گیس نہیں آتی وگر نہ گھروں ہی میں روٹی پکانے کامشورہ دیا جاتا ایسے میں حکومت اورانتظامیہ کو یہی مشورہ دیاجا سکتا ہے کہ وہ اس بارحسب دستور نانبائیوں کے سامنے ہتھیار نہ ڈالیں اور عوام کے مفاد میں آٹے کی بوری اور اس سے بننے والے پیڑے اور روٹی کی تعداد کا حساب لگاکر جملہ مصارف شامل کرکے اس کے مطابق نرخ مقرر کرنے کافیصلہ کرے نہ کہ غیر حقیقت پسندانہ نرخ مقررکیا جائے نیز روٹی کے مقررہ وزن کویقینی بنانے کی ضمانت بھی لی جائے اور اس پرسختی سے عملدرآمد کروانے کی ذمہ داری بھی پوری کی جائے۔

مزید پڑھیں:  بار بار کی خلاف ورزیاں