ایک طرف پہاڑ دوسری جانب کھائی

خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع ڈیرہ اسماعیل خان اور کرک میں پولیس پرحملے اور گاڑیاں جلانے کے واقعات میں مماثلت حملہ ہے جبکہ فرق صرف یہ ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں دہشت گردوں نے رات گئے حملہ کیااور کر ک میں دن دیہاڑے سیاسی جماعت کے کارکنوں نے پولیس کی بارہ گاڑیاںجلا ڈالیں پولیس اورکارکنوں میں تصادم سے طرفین کے افراد کے زخمی ہونے کی بھی اطلاعات ہیں ۔ بتایا گیا ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں تھانہ چودہوان پررات گئے دہشت گردوں کے حملے میں 10 پولیس اہلکار شہید اور 6 زخمی ہوگئے خیبرپختونخوا میں ایک عرصے سے دہشت گردوں کا رات کے وقت جدید ترین اسلحہ سے پولیس کونشانہ بنانے کے واقعات میںاضافہ ہوا ہے اور جدید اسلحہ کے باعث دہشت گردوں کا رات کی تاریکی میں تھانوں اور چوکیوں پرحملے میں آسانی اور پولیس کے لئے ان کا مقابلہ خاصا مشکل اورباعث چیلنج بن چکا ہے۔یاد رہے کہ گزشتہ ماہ 20 جنوری کو خیبرپختونخوا کے ضلع خیبر میں باڑہ پولیس چوکی پر دہشت گردوں نے حملہ کیا تھا، جس کے نتیجے میں 2 پولیس اہلکار زخمی ہوگئے تھے۔قبل ازیں 10 جنوری کو خیبرپختونخوا کے ضلع کوہاٹ میں انڈس ہائی وے پر لاچی ٹول پلازہ کے قریب پولیس چیک پوسٹ پر رات گئے دہشتگردوں کے حملے میں 3 پولیس اہلکاروں سمیت 4 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔5 جنوری کو بھی خیبرپختونخوا کے ضلع بنوں میں منڈان پولیس اسٹیشن پر دہشت گردوں نے حملہ کر دیا تھا۔دہشت گرد اب ہر حملے شدید اسلحہ استعمال کرتے ہیں اس ضمن میں تازہ اطلاعات کے مطابق پاکستان کی سرزمین پر افغانستان سے لائے جانے والے غیرملکی اسلحہ کے استعمال کے ثبوت ایک بار پھر منظر عام پر آ گئے۔ ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو افغانستان میں امریکا کا چھوڑا ہوا اسلحہ دستیاب ہے۔ٹی ٹی پی کو ہتھیاروں کی فراہمی نے خطے کی سلامتی کو خاطر خواہ نقصان پہنچایا ہے۔ بالخصوص پاکستان میں دہشت گردی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔29 جنوری کو ضلع شمالی وزیرستان میں سکیورٹی فورسز نے انٹیلی جنس آپریشن کیا، اس دوران فائرنگ کے نتیجے میںایک دہشت گردکو جہنم واصل کیا گیا۔دہشت گرد سے برآمد ہونے والا اسلحہ امریکی ساختہ کا تھاجس میں M-4 Carbine اور دیگر اسلحہ شامل تھا۔ اسی طرح 22 جنوری کو ضلع ژوب کے مقام سمبازا پر7دہشت گردوں کو سکیورٹی فورسز نے جہنم واصل کیا ۔ دہشت گردوں سے برآمد ہونیوالا اسلحہ غیرملکی ساخت کاتھاجس میں M-16/A2، AK-47،سلیپنگ بیگز، ہینڈگرنیڈز اور دیگر اسلحہ شامل تھا۔ انتخابات کی نزدیک تاریخ میں دہشت گردوں کے اس حملے کا مقصد انتخابی ماحول کوپرتشدد اور پر خطر ظاہر کرنے کاہی ہو سکتا ہے دہشت گردی کی تازہ واردات قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لئے بڑا چیلنج اس لئے بھی ہے کہ انہیں ایک جانب جہاں دہشت گردوں کے کسی ممکنہ حملے کے سدباب کی طرف متوجہ ہونا ہے وہاں انتخابی عملے اور انتخابی ساز وسامان کی حفاظت کے ساتھ انتخابات کوپرامن رکھنے کی بھی ذمہ داری نبھانی ہے اس دوہرے چیلج کا دہشت گردوں نے فائدہ اٹھایا جس کا تقاضا ہے کہ فوری طور پراضافی کمک کے طور پرحساس مقامات پر فوج کی تعیناتی کا جائزہ لیا جانا چاہئے ۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں امن وامان کی صورتحال بہتر نہ ہونے کے باوجود حکومت انتخابات کے مقررہ وقت پرانعقاد کے لئے پرعزم ہے ایسے میں توقع کی جا سکتی ہے کہ قریب الاختتام انتخابی مہم کے دوران سیاسی جماعتیں اور کارکن از خود بھی خود حفاظتی کے اقدامات پر توجہ دیں گے اور انتظامیہ سے الجھنے کی بجائے ان سے تعاون کا مظاہرہ کیا جائے گا جس کی اس وقت سب سے زیادہ ضرورت اور وقت کا تقاضا ہے انتظامیہ سے جلسے کی اجازت لئے بغیرکرک میں اجتماع کے انعقاد سے روکنے پر تصادم کی جو صورتحال رہی اس سے ایسا لگتا ہے کہ مخصوص جماعت کے کارکنوں کونہ توقانون کا احترام ہے او ر نہ ہی انہوں نے نو مئی کے واقعات سے سبق سیکھا ہے اس طرح کی صورتحال میں خدانخواستہ کوئی بڑا واقعہ پیش آجائے تو اس کا الزام بھی حکومتی اداروں ہی پرلگایا جائے گا بہرحال جو ہوا اچھا نہیں ہوا کے مصداق باقی ماندہ دن اور انتخابات کے دن بالخصوص احتیاط اور تعاون کا مظاہرہ کرکے انتخابی عمل کو پرامن بنایا جا سکتا ہے جس کی سعی انتظامیہ ‘ پولیس اور جملہ سیاسی کارکنوں سبھی کومل جل کر کرنی چاہئے۔

مزید پڑھیں:  تعلیمی ایمرجنسی بمقابلہ آؤٹ آف دی بکس