پھولوں کے شہر میں پلازے اُگ رہے ہیں

پشاور شہر جسے کسی زمانے میں پھولوں کا شہر بھی کہا جاتا تھا ۔آج کل بدترین بدانتظامی کا شکار ہے ۔ یہ شہر اپنے باغات اور خوبصورتی کے حوالے سے دنیا بھر میں مشہور تھا ۔ پشاور شہر جو کسی زمانے میں ایک چاردیوار ی میں قید تھا آج اتنا پھیل گیا ہے کہ شہر کے حدود پاس پڑوس کے دیہات کو بھی اپنے اندر سمیٹ چکے ہیں ۔پشاور شہر کی آبادی بھی بہت تیزی کے ساتھ بڑھی ہے پھر اس شہر پر افغان پناہ گزینوں کا اضافی بوجھ بھی گزشتہ پینتالیس برسوں سے ہے ۔ شہر میں صفائی ستھرائی کی حالت انتہائی خراب ہے اور فضائی آلودگی میں بھی اس شہر کا شمار دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں ہونے لگا ہے ۔گزشتہ چند برسوں سے پشاور شہر میں ہر طرف تعمیرات کا ایک بے ہنگم سلسلہ شروع ہوگیا ہے جس سے اس شہر کی خوبصورتی اور ماحول کو شدید خطرات لاحق ہیں ۔ چمکنی سے لیکر کارخانوں تک اور اس سے آگے بھی جو روڈ ہے اس پر دونوں اطراف پلازے بن رہے ہیں ۔ دونوں رینگ روڈز پر بھی پلازے بن رہے ہیں ، ناصر باغ روڈ پر بھی پلازے بن رہے ہیں ۔ اور اطراف میں ہر طرف رہائشی فلیٹس بن رہے ہیں ۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ دنیا کا پہلا شہر ہے جہاں یہ سب کچھ ہورہا ہے ۔ باقی دنیا کے شہروں میں بھی بلڈنگز بن رہی ہوتی ہیں لیکن دنیا میں جہاں جہاں اس طرح کی بڑی بلڈنگز بن رہی ہوتی ہیں وہاں سخت ترین قوانین لاگو کیے جاتے ہیں ۔ ماحول اور سہولت کا خیال رکھا جاتا ہے ۔ بلڈنگ بنانے سے پہلے سو طرح کے حفاظتی کام کرنا پڑتے ہیں ۔ بلڈنگ بنانے کے جو پروٹوکولز ہیں اور جو بنیادی ضروریات اور تقاضے ہیں ان کا خیال رکھنا پڑتا ہے ۔ مگر بدقسمتی سے یہاں ایسا کچھ بھی نہیں ہورہا ہے ۔ آپ یونیورسٹی روڈ پر کسی بھی پلازے میں چلے جائیں وہاں پارکنگ کا کوئی انتظام نہیں ہے ۔ مین روڈ کے ساتھ جو لنک روڈ تھے وہ بی آرٹی کی وجہ سے ختم کردئیے گئے ہیں ۔ اب یونیورسٹی روڈ پر روز ٹریفک جام ہوتا ہے ۔ اس روڈ پر کپڑوں کے چند برانڈز ہیں جن کے سامنے دو گاڑیاں بھی کھڑی کرنے کی جگہ نہیں ہے اور ان دکانوں کے سامنے سینکڑوں گاڑیاں سڑک پر ایک منٹ روکنے سے بھی پورا یونیورسٹی روڈ بلاک ہوجاتا ہے ۔ پھر جہاں جہاں بی آر ٹی کے سٹیشن ہیں وہاں جو پل بنائے گئے ہیں وہاں سڑک اتنی تنگ کردی گئی ہے کہ دو گاڑیاں ہی گزر سکتی ہیں ۔ یوں یہ اس روڈ سے گزرنے والوں کے لیے ایک مستقل درد سر کا انتظام کیا گیا ہے ۔ دنیا کے تمام شہروں میں بی آرٹی جیسے پراجیکٹ بنائے گئے ہیں لیکن وہاں سڑک میں سے صرف چھ فٹ کا حصہ لیا گیا ہے اور اس چھ فٹ پر ستون بناکر زمین سے پندرہ یا بیس فٹ اوپر سے الگ سڑک بناکر لوگوں کو سہولت دی گئی ہے۔ جبکہ پشاور میں سڑک اور لنک روڈ کا ستر فیصد حصہ کاٹ دیا گیا ہے ۔ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ بی آرٹی کا پورا روٹ جس سڑک پر بنایا گیا ہے یہ سرکار کی ملکیت ہے ۔ اس پرروڈ پر تارکول ڈال کر دونوں اطراف جنگلے لگا کر کیسے اربوں روپے ہڑپے گئے ہیں ۔ کیا سڑک کے دونوں اطراف صرف جنگلے لگانے سے بھی اتنا خرچہ آتا ہے ۔ اگرچہ اس پراجیکٹ کا پشاور کے شہریوںکو بہت زیادہ فائدہ ہے اس پر ہزاروں لوگ روزانہ سفر کرتے ہیں ۔لیکن اس کی وجہ سے بھی ہزاروں لوگ خوار ہورہے ہیں ۔ یونیورسٹی روڈ کی تو اس پراجیکٹ نے شکل ہی بگاڑ کر رکھ دی ہے ۔ نجانے نیب نام کا محکمہ کب اس طرف توجہ دے گا ۔پشاور بھر میں بننے والے یہ بلند و بانگ عمارتیں اگر تمام پروٹوکولز کا خیال نہیں رکھتیں تو مستقبل میں ایسے مسائل پیدا ہوں گے کہ اس شہر میں سانس لینا بھی دشوار ہوجائے گا۔پشاور شہر اس صوبہ کا دارالخلافہ ہے اس کے لیے دنیا کی دیگر شہروں کی طرح ٹاون پلاننگ ہونی چاہئیے۔اور جو ماسٹر پلان بنے اس پر سختی کے ساتھ عمل درآمد ہونا ضروری ہے ، مگر ماسٹر پلان کو تو چھوڑیں یہاں چند ماہ پہلے یونیورسٹی روڈ کی سڑک بنائی گئی تھی چند دن پہلے اس کو پھر سے کھود کر اس کو تباہ کردیا گیا ہے ، اگر کوئی لائن اس راستے سے گزارنی ہی تھی تو بی آرٹی پر کام کرتے ہوئے اس کے لیے سڑک کے نیچے پائپ ڈالتے جیسا پوری دنیا میں کیا جاتا ہے اور پھر جب بھی ضرورت پڑتی تو اس میں مزید تاریں ڈال کر مقصد پورا کیا جاسکتا تھا ، اب ہر دفعہ اس روڈ کو اکھاڑا جائے گا اور پھر اس روڈ پر چلنے والوں کی زندگی عذاب بنا دی جائے گی ۔ ایک ماسٹر پلان بننے پر کتنا خرچہ آئے گا ۔ اور اس پر عمل درآمد کرنے میں کیا قباحت ہے مگر یہاں کس کو پرواہ ہے ۔ ایک برس نہیں ہوا ہوتا کہ دوبارہ سے اس فٹ پاتھ کو اکھاڑ کر نئی فٹ پاتھ بنارہے ہوتے ہیں ۔ اور کوئی بھی اتھارٹی باز پرس نہیں کرتی کہ اس کی ضرورت کیا ہے جو یہ پیسہ یہاں خرچ کیا جارہا ہے اور ضائع کیاجارہا ہے ۔ چند ہی دن ہوئے ہیں پشاور صدر میں آرائش و رنگ و روغن ہوئے ذرا جاکر اس کام کا معیار ملاحظہ کریں ۔اس میں کتنی ٹوٹ پھوٹ ہوئی ہے ۔ ایک طرف تو ہم رونا رو رہے ہوتے ہیں کہ ہم دنیا سے قرض لے کر معیشت کو چلا رہے ہیں اور دوسری طرف سرعام قیمتی پیسوں کا یہ زیاں دیکھ کر حیرت ہوتی ہے ۔ اگر اس شہر کو رہنے کے قابل رہنے دینا ہے تو اس میں جو بے ہنگم کام ہورہے ہیں ان کو فوراً بند کرکے باقاعدہ منصوبہ بندی کرکے اس کے بعد جو کام ٹھیک ہیں ان کو کرنے کی اجازت دی جائے اور جو قانون اور ٹاون پلاننگ کے اصولوں کے منافی ہیں ان کو ختم کردینا چاہئیے ۔ جو شہر ی ٹیکس دیتے ہیں ان کو یہاں ہر قدم پر لوٹا جاتا ہے ۔ آپ صدر چلے جائیں روڈ پر گاڑی کھڑی کرنے کے سو روپے دیں آپ کارخانو مارکیٹ چلے جائیں وہاں گاڑی کھڑی کرنے کے سو روپے دیں ۔ایسا دنیا میں کہیں ہوتا ہے کہ جو پارکنگ کی جگہ خریداری کے لیے آنے والوں کے لیے قانون کے مطابق بنائی گئی ہے اس پر لوگ کھڑے کرکے غنڈا ٹیکس وصول کیا جائے ۔ ایسا صرف ہمارے ملک میں ہوتا ہے جہاں کوئی سہولت نہیں دی جاتی الٹا شہریوںکو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جاتا ہے ۔ پشاور شہر کے اندر تو صورتحال اس سے کئی گنا بدتر ہے ۔ اندرون شہر نہ تو صفائی ہے اور نہ ہی کوئی روک ٹوک جس کے جی میں آتا ہے وہ اپنی مرضی سے جہاں چاہے گاڑی کھڑی کرلیتا ہے ۔ جس کا جہاں جی چاہتا ہے ریڑھی لگا لیتا ہے ۔ دکانوں کے سامنے سڑک پر ٹھیلے لگا کر نصف سے زیادہ قبضے میں لے کر لوگ سودا بیچ رہے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ان سڑکوں پر گزرنا ایک عذاب سے کم نہیں ہوتا مگر کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا ۔ یہی حال بورڈ بازار کا بھی ہے جہاں افغانستانی باشندوں نے پاکستانی قانون کو عملاً چیلینج کیاہوا ہے ۔ افغانستان میں طالبان بازاروں میں قانون کی عمل داری کو یقینی بنارہے ہیں اور پاکستان میں اربوں کی تنخواہ وصول کرنے والے ذمہ دار وںکے ہوتے ہوئے یہ حال ہے ۔ یہ سب بھتہ مافیا کی وجہ سے ہے ان تمام لوگوں سے متعلقہ سرکاری اہلکار روازنہ کے حساب سے بھتہ لیتے ہیں ۔ یہ افراد حکومت سے تنخواہ بھی لیتے ہیں اور جس کام پر مامور ہیں اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کی پشت پناہی کرتے ہیں ۔ پشاور شہر اپنی ثقافت ، خوبصورتی ، باغات اور ماحول کی وجہ سے مشہور تھا ۔ حالیہ بے ہنگم تبدیلیاں نے اس کی مذکورہ بالا تمام حوالوں کو شدید متاثر کیا ہے ۔ اور اس کے ذمہ دار جو بھی ہیں ان کے خلاف قانونی کاروائی ہونی چاہئیے۔ اور یہ پشاور ہائی کورٹ کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ ذمہ داراہلکاروں کو پابند کرے کہ وہ اس شہر کی صورت نہ بگاڑیں ۔ ورنہ پھر چند برس بعد کراچی کی طرح سپریم کورٹ پشاور میں روز عدالت لگا کر عمارتیں گرائی جائیں گی اور قبضوںاور ناجائز تعمیرات کے خلاف کاروائی کرے گی ۔ تب شاید بہت دیر ہوچکی ہوگی اور کراچی کی طرح قبضہ مافیا یہ سب کچھ غربیوں کو بیچ کر کہیں نکل گئے ہوں گے اور نزلہ جاہل اور ضرورت مند غریبوں پر گرے گا جو ان عمارتوں میں رہائش پذیر ہوں گے ۔اور یہ جو پشاور شہر اطراف میں پھیل رہا ہے اس کو بھی قانونی دائر ہ اختیار میں لایا جائے اور شہر کا ایک مکمل ممکنہ نقشہ بنایا جائے اوروہاں ہونے والی تعمیرات پر تمام قوانین عملاً لاگو کیے جائیں ۔آپ اندازہ لگائیں یہ پشاور کا حال ہے جہاں گورنر، وزیراعلیٰ، وزیر ، مشیر ، سکریٹرزاور ان کا ہزاروں کا عملہ، پولیس ، پی ڈی اے اور بلدیات کا ہزاروں کا عملہ ہے ۔تو پھر ان علاقوں کا کیا حال ہوگا جہاں ان سب میں کوئی بھی نہیں ہے ۔ نیویارک اور ٹوکیو جیسے بڑے شہروں کو صاف ستھرا اور قانون کے تابع رکھنے کے لیے پشاور کے مقابلے میں ستر گنا کم عملا تعینات ہے ۔ کیا ہم ان شہروں کا پشاور کے ساتھ موازنہ کرسکتے ہیں ۔ پشاور شہر کو باغات اور پھولوں کے شہر سے نکال کر آپ پلازوں کا شہر تو بنا رہے ہیں لیکن خدا کے لیے پلازے تو ایسے بنائیں جس میں انسان سہولت کے ساتھ جاسکیں ۔ اور جس بڑی تعداد میں منشیات کا استعمال کرنے والے پشاور شہر میں بڑھ رہے ہیں وہ اس شہر کی ایک ایک اینٹ اور دروازے جو آپ لگا رہے ہیں اس کو اکھاڑ کر بیچ دیں گے ۔

مزید پڑھیں:  تعلیمی ایمرجنسی بمقابلہ آؤٹ آف دی بکس