شکریہ حافظ صاحب

سوشل میڈیا پر ایم کیو ایم کا ایک بینر” شکریہ حافظ صاحب”ابھی موضوع بحث ہی تھا کہ بینر کی یہ تصویر وائرل ہونے کے بعد پورا ملک ”شکریہ حافظ صاحب ” کی گردان کر نے لگا ۔ نجانے ایم کیو ایم کا مخاطب کون حافظ صاحب تھے مگر پاکستانیوں کی اکثریت کا مخاطب کراچی کے دلیر اور دبنگ لیڈر حافظ نعیم الرحمان ہیں۔حافظ نعیم الرحمان ایک غیر معمولی اور قائدانہ صلاحیتوں کی حامل شخصیت ہیں۔ہمیں ان 1998میں ان کے ساتھ برطانیہ کے ایک دورے اور کئی شہروں میں سفر کرنے کا موقع ملا جب وہ جمعیت کے ناظم اعلیٰ تھے ۔اس وقت بھی وہ اپنی تقریروں سے پاکستانیوں کے من موہ لیتے تھے ان کی باتیں لوگوں کے دلوں میں اُترتی تھیں ۔حافظ نعیم الرحمان اس وقت قوم کے شکریے کے مستحق ایک بلند اخلاقی میعار قائم کرنے پر ٹھہرے ہیں۔انہوںنے فارم پینتا لیس کی بنیاد پر اپنی ہار کو تسلیم کیا اور الیکشن کمیشن کی طرف سے عطا کر دہ اپنی نشست چھوڑنے کا اعلان کیا ۔حافظ نعیم الرحمان کے اس اعلان چند گھنٹے قبل تحریک انصاف کے ایک آزاد ایم این اے لاہور میں مسلم لیگ ن کو پیارے ہوگئے تھے اور اس بے ضمیری سے پاکستانی سیاست کا چیچک زدہ چہرہ مزید قبیح ہو کر رہ گیا تھا ۔ایسے میں حافظ نعیم الرحمان پاکستان کے اس قبیح سیاسی چہرے پر امید اور حسن کی ایک لہر سی اُٹھاگئے اور دنیا کو انداز ہ ہوا کہ اس خاکستر جسے پاکستان کی سیاست کہا جاتا ہے میں ابھی حافظ نعیم الرحمان جیسی چنگاریاں موجود ہیں۔حافظ نعیم الرحمان پاکستان کے انتخابات میں نوجوانوں نے دنیا کے سامنے پاکستان کا ایک نیا امیج ہی نہیں بنایا بلکہ پاکستانی قوم کا شاندار پوٹینشل بھی عیاں کر دیا ۔کسی قوم کا پوٹینشل اس کے ایٹم بم ،اس کی بلند عمارتیں اس کے پرہجوم بازار اور تفریح گاہیں نہیں ہوتیں اس کا مجموعی اور انفرادی کردار ہوتا ہے ۔افغان جہا د کے بعد ہمیں دنیا میں منشیات کی سمگلنگ کرنے والی قوم کے طور پر دیکھا جانے لگا اور نائن الیون کے بعد بغل میں بم لے کر پھرنے والے دہشت گردوں کی شناخت کا ٹیگ لگا جو اب تک اُترنے نہیں پایا ۔نائن الیون کے بعد تو مغربی معاشروں میں مقیم ہمارے بے شمار نوجوان بتایا کرتے تھے کہ وہ پبلک میں اپنا تعارف ایک پاکستانی کے طور پر کرانا پسند نہیں کرتے ۔مغرب کی نئی نسل اس سوچ کے ساتھ جوان ہوئی کہ پاکستان ایک اجڈ اور گنوار قوم ہیں جن کا نہ کوئی سسٹم ہے نہ کوئی اقدار ہیں اور جو ہر صورت میں دنیا پر دہشت طاری کرنا چاہتے ہیں ۔معاشی بدحالی نے ان سے آزاد روی کی خُو بُو ہی چھین لی ہے ۔بہت سے ایسے واقعات ہوئے کہ مغربی باشندوں نے کہا کہ پاکستان کے لوگ تو ڈالروں کے لئے اپنی ماں تک بیچ دیتے ہیں ۔ریمنڈ ڈیوس جیسے لوگوں نے اپنی کتھا بیان کرے ہمارے قانونی اور حکومتی نظام کا جم کر مذاق اُڑایا ۔اسلام سے امریکہ کے حوالے کئے جانے والے افغان سفیر ملا عبدالسلام ضعیف نے ہماری بے بسی اور شکست ریخت کو ایک کتاب کی شکل میں محفوظ کر لیا ۔دنیا نے یہ سمجھ رہی تھی کہ پاکستان نام کا ایک ملک ہے جہاں فوج کی حکومت ہے اور پوری قوم اس محور کے گرد گھوم رہی ہے ۔ایک خاتون صحافی کرسٹینا لیمب نے تو ہمارے رویوں پر ”اللہ کا انتظار” کے عنوان سے کتاب لکھی تھی کہ یہ وہ قوم ہے جو اپنے حالات بدلنے کے لئے صرف اللہ کا انتظار کر رہی ہے۔دوسرے لفظوں میں وہ ہمیں نکمے لوگ کہہ رہی تھی۔اس الیکشن میں پاکستانی نوجوانوں نے ووٹ کی طاقت سے پاکستان کے چہرے کے یہ سب داغ دھوڈالے۔دہائیوں سے پاکستان کے چہرے کو ایک منظم انداز سے داغدار کیا گیا تھا ووٹ کی پرچی کے استعمال نے پاکستان کے چہرے کو شفاف بنادیا اور اس قوم کے اندر موجود زندگی ،زندہ رہنے اور آگے بڑھنے کی چنگاری بھی دنیا کو دکھا دی ۔پاکستانی نوجوانوں نے اسٹیبلشمنٹ کی سوچ کے برعکس ووٹ دیا ۔دنیا حیران ہے کہ پاکستانی رسیاں تڑوا کر کہاں چل دئیے ۔زلمے خلیل زاد افغان نژاد امریکی جو جنرل مشرف کے دورمیں پاکستان کو دہشت گردی کا مرکز کہتے رہے آج پاکستانی نوجوانوں کے سرنہ جھکانے کی روش پر ”تھینک یو پاکستانی پیپل” کہہ رہے تھے ۔دنیا کا ہر قابل ذکر اخبار ٹی وی چینل اور تجزیہ نگار حیران بھی ہے اور پاکستانی معاشرے کے اندر پنہاں طاقت پر خوشی کا اظہار بھی کر رہا ہے ۔مارٹن کوبلر گزشتہ دہائی میں پاکستان کے سفیر رہ چکے ہیں پاکستان کے علاوہ مصر اور عراق جیسے ملکوں کے ہنگامہ خیز دنوں کے رازدان بھی ہیں ۔مارٹن کوبلر نے اپنے ٹویٹ میں پاکستانیوں سے یوں گویا ہوئے ” میں الیکشن میں بڑے پیمانے پر شریک ہونے پرپاکستانی عوام کی جمہوری روح سے متاثر ہوا ہوں ۔بڑی تعداد میں پاکستانی نوجوان پولنگ سٹیشنز پر آئے ۔نوجوانو تم پاکستان کا مستقبل ہو۔عوامی رائے کا احترام ہونا چاہئے ۔پاکستان میرے دل کے بہت قریب ہے ۔پاکستانیوسلامت رہو”۔دنیا کے بہت سے تجزیہ نگار حیران ہیں کہ یہ بھی پاکستان کا ایک چہرہ ہے کہ وہ ماضی کے برعکس اسٹیبلشمنٹ کے دبائو کو مسترد کرکے دوسرے رخ چل دئیے۔دنیا اسے کسی سیاسی جماعت سے عوام کا منہ موڑنا نہیں سمجھتی بلکہ اسے ملکی تاریخ میں پہلی بار اسٹیبلشمنٹ سے رخ موڑ نے کے زاویے سے دیکھ رہی ہے اور اس سے دنیا میںا نداز ہ ہورہا ہے کہ پاکستانی معاشرہ جمہوریت اور قانون کی حکمرانی پسند کرتا ہے ۔یہ فقط عالمی منشیات فروشوں کا خام مال اور دہشت گردوں کی جنت نہیں بلکہ جمہوریت پسند اور دنیا میں سر اُٹھا کر چلنے والوں کا ملک ہے ۔اس کے اندر گر کر اُبھرنے کی حس پوری طرح قائم بھی ہے اور متحرک بھی ہے ۔ایک گڑھے میں گرتے گرتے نوجوانوں نے اپنا ملک ووٹ کی طاقت سے واپس کھینچ لیا ۔پاکستان کو ایک ناکام ریاست کے طور پر دیکھنے والوں کے لئے یہ انوکھا مشاہدہ ہے۔خود بھارت میں پاکستانیوں کی اس Reslienceکی طاقت اور صلاحیت پر حیرت کا اظہار کیا جا نے لگا ہے ۔پاکستانی قوم کی اس صلاحیت میں پھر کئی ہیرے اُبھر اور نکھر کر سامنے آئے ہیں جنہوں نے اقدار سے محروم ہوتے ہوئے خواب گاہوں کی آڈیو ز اور وڈیوز کے عام ہوتے ہوئے کلچر میں بلند اخلاقی میعارقائم کئے ۔حافظ نعیم الرحمان بھی اس بحر کی تہہ سے اُچھلنے والا ہیرہ ہیں ۔جنہوں نے اپنی خیرات میں ملنے والی نشست کو جوتی کی نوک پر رکھا ۔حافظ نعیم الرحمان اس میدان کے ٹرینڈ سیٹر بنے اور اس کے بعد پیر صاحب پگار ہ نے بھی آگے بڑھ کر بصد شکریہ دو حاصل کردہ نشستیں واپس لوٹا دینے کا اعلان کیا ۔کئی ہارے ہوئے لوگ تو پہلے ہی اپنی ہار تسلیم کررہے تھے مگر جیتنے والوں نے اپنی جیت پلیٹ میں رکھ کر واپس کرنے کا اپنا معیار ہے ۔اس عمل سے پاکستانی قوم کے اندر سیاسی اقدار اور اخلاقی میعار قائم ہونے کاایک تاثر گہرا ہو۔قوموں کا تعارف اور پہچان ان کے لئے زندگی سے زیادہ عزیز ہوتا ہے۔ سیاست کے اس بازارِمصر میں بہت سے ایسے لوگ سامنے جنہوں نے وقتی مفاد پر پاکستان کی ساکھ کو ترجیح دی۔وہ لوگ بھی اس قوم کا پوٹینشل ہیں جو پریس کانفرنسیں کر کے اپنی خیراتی فتح کی بجائے عوامی شکست کو قبول کرنے کا برملا اظہار کر رہے تھے ۔پاکستان میں سیاست کو کنٹرولڈ رکھنے اور سوسائٹی کو ذی پولیٹیسائز کرنے کا مقصد ہی یہی ہوتا کہ عوام کو جماعتوں اور افراد کے درمیان فرق کا اندازہ ہو نہ ان کے اندر اس کی پرکھ آئے۔جب عوام کو پرکھ آئے گی تو پھر وہ فیصلہ سازی کی آزادی پر اصرار کریں گے اور یوں معاملات کو کنٹرول کرنا طاقت کو اپنی مٹھی میں بند رکھنا آسان ہوتا ہے۔

مزید پڑھیں:  اب نہیں تو کب ؟